پشاور خود کش حملہ: ’لوگ تعزیت کر رہے ہیں لیکن درد ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے بازو کٹ چکا ہو‘

عزیز الله خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


تعزیت
دو روز قبل پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کے گھروں میں لوگ افسوس کے لیے آ رہے ہیں، لیکن محمد علی کے مطابق لوگ تعزیت کر رہے ہیں لیکن درد ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے بازو کٹ چکا ہو۔

جمعے کو ہونے والے خود کش حملے میں ہلاک ہونے والوں میں محمد علی نے کے بھائی بھی شامل تھے۔

پشاور کے کوہاٹی گیٹ کے سامنے سڑک پر پڑے جنازوں میں سے ایک کے قریب محمد علی بیٹھے مسلسل روئے جا رہے تھے۔ ان کے ہلاک ہونے والے بھائی تحسین ان سے عمر میں قریب تین سال بڑے تھے۔ تحسین سوگواران میں دو بیٹے اور حاملہ اہلیہ چھوڑ گئے۔

محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک روز پہلے میری بات بھائی سے ہوئی تھی اور میں نے بھائی سے کہا تھا کہ ملاقات کرنی ہے جس پر بھائی نے کہا کہ وہ کل 12 بجے سے 2 بجے تک مسجد میں جمعہ نماز کی ادائیگی کے لیے ہوں گے اس لیے جب میں مسجد میں ہوں تو مجھے فون نہیں کرنا۔‘

محمد علی نے بتایا کہ ’بھائی نے کہا کہ دو بجے میں مسجد سے نکلوں گا تو اس کے بعد فون کال کرنا نماز کے دوران مجھے ہرگز فون نہیں کرنا اور اگر ارجنٹ کام ہے تو ابھی بتا دو اگر نہیں تو کل نماز کے بعد بات کریں گے یہ کہتے ہوئے محمد علی زور زور سے رونے لگا اور کہا کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ نماز کے بعد پھر کیسے ملاقات ہو گی۔‘

سنیچر کے روز ہلاک ہونے والے متعدد افراد کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور شہر کے مختلف علاقوں میں فاتحہ خوانی کی جاتی رہی۔

خیال رہے پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں نمازِ جمعہ کے وقت خود کش دھماکے میں 62 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

مسجد

’ابھی ایک بیٹے کا غم تازہ تھا کہ دوسرا اللہ کو پیارا ہو گیا‘

سنیچر کی صبح پشاور میں کوہاٹی گیٹ کے سامنے چوک میں دس افراد کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کر دیا گیا جبکہ 28 افراد کی نماز جنازہ کل یعنی جمعہ کو رات کے وقت ادا کر دی گئی تھی۔

دوسری جانب ہلاک ہونے والے دیگر شہروں کے افراد کی میتیں اپنے آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئی ہیں۔ ان میں پاڑہ چنار اور ٹل کے علاقے کے افراد زیادہ تھے۔ امام مسجد کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے بتایا گیا ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے افراد کی تدفین ادھر آبائی قبرستانوں میں کی گئی ہے۔

نماز جنازہ کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ اس وقت وہاں موجود بزرگ، جوان، بچے سب اپنے رشتہ داروں کے لیے خفا تھے کوئی رو رہا تھا تو کوئی آنکھوں میں آنسو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔

محمد علی نے بتایا کہ ان کے ایک بھائی گذشتہ سال کینسر کے مرض سے فوت ہو گئے تھے، کل جب اس بھائی کی اطلاع آئی تو والدہ کہہ رہی تھیں کہ ’ابھی ایک بیٹے کا غم تازہ تھا کہ دوسرا بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پشاور خودکش حملہ: ہلاکتوں کی تعداد 62 ہو گئی، ٹی ٹی پی کا اعلان لاتعلقی

پاکستانی شہروں میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات افغانستان میں ٹی ٹی پی پر پُراسرار حملوں کا ردعمل ہیں؟

پشاور میں طالبان کے پرچم: دو افراد گرفتار، مدرسہ سیل

پشاور کی مسجد میں دھماکہ: ’ایک رضا کار نے بتایا کہ یوں لگا جیسے حملہ آور جانتا تھا کہ کون کہاں ہے‘

سوگوار

بیٹی کی پیدائش پر خوش پولیس اہلکار نہیں رہا

اس دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے گھرانوں میں غم چھایا ہوا ہے۔ انھی میں ایک محمد جمیل سپاہی ہیں۔ اس حملے کا شاید پہلا نشانہ پولیس اہلکار محمد جمیل تھے جنھیں حملہ آور نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔

محمد جمیل کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ سے دو روز پہلے محمد جمیل کی بیٹی پیدا ہوئی ہے اور محمد جمیل نے ساری رات ہسپتال میں گزاری تھی۔ وقعوعہ کے روز بھائی صبح سویرے ڈیوٹی پر چلے گئے تھے اور ان سے بات نہیں ہو سکی تھی۔

جمیل کے بھائی خلیل نے بتایا کہ دوران ڈیوٹی کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ بھائی نے فون کیا تھا اور باتیں کر رہے تھے۔ بھائی نے کہا کہ صبح تم سے ملے بغیر ڈیوٹی پر چلا گیا تھا اس لیے تمھیں فون کر رہا ہوں لیکن پھر دوپہر ایک بجے کے بعد فون آیا کہ جمیل بھی ان افراد میں شامل ہے جو خود کش حملہ آور کا نشانہ بنے ہیں۔

خلیل کا کہنا تھا کہ بھائی بیٹی کی پیدائش پر بہت خوش تھا، ان کا ایک چھوٹا ڈیڑھ سال کا بیٹا ہے اور اب بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔

پشاور کے کیپٹل سٹی پولیس آفیسر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ پوسٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ پشاور میں پولیس جوان کانسٹیبل جمیل خان شہید کی دلخراش کہانی، بیٹی رات کو ہسپتال میں پیدا ہوئی، صبح فرائض کی ادائیگی کے لیے دلیر باپ صبح ڈیوٹی پر گیا اور پھر سیدھا جنت میں چلا گیا۔

اسی طرح اس حملے میں ایک باپ اور معصوم بیٹا بھی نشانہ بنے ہیں۔ معصوم بیٹا حسن عباس جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ والد شدید زخمی ہیں۔

پولیس

پولیس کی تفتیش میں کیا انکشافات ہوئے؟

اس بارے میں پشاور کے پولیس افسر اعجاز خان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں سکیورٹی الرٹ تھی جہاں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت کے علاوہ ہندو برادری کی ایک تقریب کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے جبکہ شہر کے تمام مذہبی مقامات کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی یعنی محکمہ انسدادِ دہشتگردی، پشاور پولیس اور حساس اداروں پر مشتمل ٹیم نے موقع سے اہم شواہد حاصل کیے ہیں جبکہ جائے وقوعہ کے اطراف میں پانچ کلو میٹر تک سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے تجزیہ کیا گیا ہے۔

اس بیان کے مطابق جائے وقوعہ اور اطراف میں جیو فینسنگ بھی کی گئی اور موقع سے شواہد حاصل کیے گئے جن میں خودکش کے باڈی پارٹس، فنگر پرنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ وقوعہ میں استعمال ہونے والی پستول سے فنگر پرنٹس اور خالی خول وغیرہ حاصل کیے گئے۔

نادرا ٹیم کو موقع پر بلا کر خود کش حملہ آور اور سہولت کاروں کی پہچان شروع کی گئی ہے اسی طرح ہیومن انٹیلی جنس کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے رکشہ ڈرائیور تک رسائی حاصل کی گئی ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان شواہد کی روشنی میں تفتیشی ٹیم نے وقوعہ کو دو سے تین گھٹوں میں ورک آوٹ کرتے ہوئے ملوث نیٹ ورک کو توڑ دیا ہے اور خودکش حملہ آور کے خاندان تک رسائی حاصل کر لی گئی ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں بقایا نیٹ ورک تک بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے پہنچ جائیں گے۔

خیال رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے اپنی ویب سائٹ پر قبول کی ہے اور خود کش حملہ آور کی تصویر اور نام بھی جاری کیا ہے۔

تاہم اس بارے میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘پشاور میں جو واقعہ رونما ہوا ہے، ہم اس کی تائید نہیں کرتے، اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کو جہادِ پاکستان کے لیے نقصان سمجھتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments