رانجھا کی ویلنٹائن ہیر تھی…. !
پابندی تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر ہو یا ویلنٹائن ڈے پر۔ دونوں غلط ہیں۔
عقیدے کی بنیاد پر انسانوں کی آزادی سلب نہیں کی جاسکتی
ہاتھوں میں بستر اٹھائے اور فضائل اعمال لیے سادے نوجوان بھی اپنے نظریئے سے اتنے ہی مخلص ہیں جتنے ہاتھوں میں پھول اٹھائے نوجوان جو دھڑکتے دلوں سے یہ پھول اپنی محبوباوں کو پیش کرتے ہیں اور وہ لڑکیاں جو نظریں چرا کر ان پھولوں کو وصول کرتی ہیں، وہ اس وقت کائنات کی سب سے خوب صورت سچائی ہوتی ہیں۔
ویلنٹائن ڈے محبت کرنے کا دن ہے، اسلام میں فحاشی، عریانی اور بدکاری کی ممانعت ہے، محبت کرنے کی نہیں
مردوعورت کے آزادانہ اختلاط کو بھی اسلام منع کرتا ہے تاہم عقیدے کی بنیاد پر انسانوں پر جبر نہیں کیا جاسکتا، اگر کسی کو اسلام کی یہ بات اچھی لگتی ہے تو وہ اس کو اپنائے، اگر کوئی اس بات پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو وہ اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے۔
کسی بھی مرد کی سب سے بڑی کامیابی وہ لمحہ ہے جب وہ عورت کو متاثر کرتا ہے، بہت زیادہ دولت کمانے یا کسی بھی مقام پر پہنچنے سے زیادہ خوشی مرد کو اس لمحے ہوتی ہے جب وہ کسی لڑکی کا دل جیتتا ہے اور اسی طرح عورت کو سب سے زیادہ خوشی اس لمحے ہوتی ہے جب کوئی مرد اس کو اپنی سب سے بڑی خوشی قرار دیتا ہے، یہ انسانی فطرت ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں
پھر ویلنٹائن ڈے ہی کیوں؟
یہ درست ہے کہ ویلنٹائن ڈے سرمایہ دارانہ نظام کی ایک پراڈکٹ ہے، جس کے ذریعے عام انسانوں کا سرمایہ خاص انسانوں تک منتقل ہوتا ہے تاہم پاکستان میں یہ معاملہ الگ ہے۔
پاکستان میں ویلنٹائن ڈے رجعت پسندی اور روایت پسندی کے خلاف ایک علامت کا نام ہے، یہ وہ دن ہے جب ہم معاشرے پر مسلط انتہاپسندانہ قوتوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ نہیں نہیں۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔
کیا ویلنٹائن ڈے ہمارے کلچر کے خلاف ہے؟
انتہاپسند قوتیں ویلنٹائن ڈے کو فحاشی وعریانی کا دن بنا کر پیش کرتی ہیں، اصل میں مغربی ممالک میں محبت کے اظہار کی صورتیں ہمارے یہاں سے مختلف ہیں، صنفی انقلاب کے بعد مغربی معاشرے میں محبت کے اظہار کے پیرائے بدل گئے ہیں، ویلنٹائن ڈے پر بوس وکنار اور بغلگیر ہونا اور جسمانی رشتہ استوار کرنا مغرب کی کسی حد تک روایت ہوگی مگر مشرقی معاشروں میں محبت کے اظہار کی صورت مختلف ہے، یہاں کپکپاتے ہاتھوں سے پھول دینا اور نظریں جھکا کر پھول وصول کرلینا ہی محبت کے اظہار کی واحد نہیں تاہم عمومی صورت ضرور ہے، اس لیے ویلنٹائن ڈے کو فحاشی ڈے ثابت کرکے اسے مشرقی کلچر کے برعکس قرار دینا قطعاً مناسب نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا محبت کرنا ہمارا کلچر ہے تو یقینا اس کا جواب ہاں میں ہے۔
محبت ہیررانجھا کے دیس کا ہی کلچر ہے، روز دریا عبور کرکے مہینوال سے ملنے جانے والی سوہنی بھی ہمارے ہی دیس کی تھی۔
کمہاروں کی بیٹی سسی کو دریا کنارے کپڑے دھوتے دیکھ کر پنوں کا فدا ہونا دراصل اسی تہذیب کا اظہار تھا جس سے آج ہم انکار کررہے ہیں۔
مومل رانو کے فراق میں جل کر راکھ ہوئی، عمر ماروی کو اٹھا کر لے گیا، یہ سب کہانیاں ہمارے خطے کی ہیں، یہ ہماری پہچان ہیں، ہم محبت کرنے والے خطے سے تعلق رکھتے ہیں، ہم رومانوی داستانوں کی سرزمین کے باسی ہیں، کسی کو حق نہیں کہ ہمیں ہماری روایتوں سے دور کرنے کے لیے پابندی عائد کرے، ہاں! ان روایتوں کو اختیار کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہمارا ہے
ویلنٹائن ڈے بلاشبہ ایک مغربی روایت ہے تاہم اصولاً یہ دن ہمارے خطے کا ہے، یہ سوہنی ڈے ہے، یہ سسی فیسٹول ہے، یہ شیریں کا کلچر ہے، اسے اپنا سمجھ کر پورے سال اور ہر دن منانا چاہیے۔
ویلنٹائن ڈے دوسروں کی بہنوں کے لیے ہی کیوں!!
ویلنٹائن ڈے دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ہماری عورتیں کردار کی مضبوط اور ہمارے بھروسے کی آئینہ دار ہیں، دنیا میں کوئی مرد اور عورت ایسا نہیں جس کا کسی نہ کسی درجے میں کوئی محبوب یا آئیڈیل نہ ہو، پابندیاں لگانے سے ہم فطرت کی ان قوتوں کو قریب آنے سے نہیں روک سکتے تو کیوں نہ ان فطری رویوں کو اپنا اعتماد دیں، اپنی عورتوں کے کردار پر اعتماد کریں، پھول وصول کرلینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی عورتوں نے فحاشی کا کوئی مظاہرہ کیا، اگر اس سب کو آپ کا بھروسہ بھی حاصل ہو تو فحاشی وعریانی کو روکا جاسکتا ہے ورنہ آپ کوئی بھی پابندی لگالیں۔ بغاوتیں ہوتی رہیں گی۔
چپکے چپکے فحش ویب سائٹ دیکھنے سے بہتر ہے کہ مہذب انداز میں کسی عورت کو متاثر کرکے کارنامہ انجام دیں، یہ ایک صحت مند رجحان ہے، عورت کے بھروسے کے قابل بنیں، عورتوں کو متاثر کرنے کی قابلیت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دنیا پر اپنی اس محرومی کو مسلط کردیں گے اور جو محبت کی بات کرے گا، اس کو تقدیس کے خنجر سے قتل کردیں گے۔
کسی کو بھی ویلنٹائن ڈے پر روکنے سے قبل اپنے گریبان اور سماجی رابطوں کی ایپس کے اِن باکس میں جھانک ضرور لیجئے گا شاید اپنے رویوں میں کچھ منافقت نظر آجائے۔
- سانحہ 12 مئی کا ذمہ دار کوئی انسان نہیں بلکہ بھوت تھا - 12/05/2021
- بلاول بھٹو کی جدوجہد کیا ہے؟ - 04/07/2020
- محل کی شہزادی کی کہانی دوبارہ لکھی جائے - 18/01/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).