عورت مارچ کی مخالفت: یہ حیا کا نہیں، ناانصافی کا سوال ہے


عورت کا عالمی دن قریب ہے۔ عورت مارچ اور حیا مارچ کا جھگڑا، جلوس اور متنازعہ پلے کارڈ کا وائرس، بحث اور مباحثے شروع ہوئے چاہتے ہیں۔ عورت مارچ میں مرد اور حیا مارچ میں بھی مرد، عورت مارچ میں عورتیں اور حیا مارچ میں بھی عورتیں۔ سو یہ بحث تو بیکار ہے کہ یہ عورت اور مرد کی لڑائی ہے۔ یہ تو ایک سوچ کی لڑائی ہے دو انتہاؤں کا جھگڑا ہے۔

عورت مارچ کی سب سے اہم کردار ایک عورت ہے۔ اور توقع یہی کی جاتی ہے کہ عورت مارچ عورت کو محفوظ اور مضبوط بنانے کی مہم ہے۔ مضبوط عورت آخر ہوتی کون ہے؟

مضبوط اور بہادر عورت وہ ہے جس کے ساتھ اس کے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا کھڑے ہو جائیں۔ اس کو گھیر کر نہیں، اس کے ساتھ اور برابر جو اسے کہیں کہ آج اس ساری دنیا کے سامنے ہم ہر مشکل میں تمھارے ساتھ ہیں نہ کہ یہ کہ تم پیچھے جا کر اندر چار دیواری میں بیٹھو، کھانا بناؤ تا کہ تم محفوظ رہو۔ دراصل حفاظت کی ضرورت تو مشکلات میں نکلنے والوں کو یعنی دنیا میں گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والوں کو ہی پڑتی ہے۔ چار دیواری میں گھر کے اندر بند عورت کو کم سے کم حفاظت کی ضرورت نہیں رہتی اسے تو صرف ایک کھونٹے سے بندھی بکری کی طرح تین وقت کی روٹی اور کپڑے کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ صرف بنیادی ضروریات! تو پھر کم سے کم مرد کا گھر کے اندر بند عورت کا محافظ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ہو جاتا ہے۔

مضبوط لڑکی وہ ہے جس کی آنکھوں میں خواب جاگیں تو اسے نوچنے نہ پڑیں۔ اگر بیٹوں کی آنکھوں میں خوابوں کے جنم سے عزت کا جنازہ نہیں نکلتا تو بیٹی کے آنکھوں کے تاروں سے بھی نہیں نکلنا چاہیے۔ محفوظ لڑکی وہ ہے جسے خواب دیکھنے کا اور ان کی تعبیر کا حق ہے۔ اگر اسے نوچنے پڑیں تو وہ محفوظ نہیں۔ انسان کو خدا نے سوچنے، سمجھنے، سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لئے پیدا کیا ہے، ہر انسان، مرد و عورت، لڑکی اور لڑکے کو یہ حق حاصل ہے!

یہ خواب انسان کو آگے بڑھنے کا عزم دیتے ہیں، ان کو وقت، حال اور مستقبل بدلنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ خواب کیسے بھی ہوں۔ خواب روشنی ہیں، خواب ہی حیات ہیں۔ ان کے مواقع چھیننے کا حق باپ اور بھائی کو کیسے ہو سکتا ہے؟ ان سے ان کے خواب چھیننا ان کو ذہنی اور اخلاقی طور پر معذور کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پرندوں کو قید میں رکھنے کے لئے ان کے پر کاٹ دیے جائیں۔

مضبوط اور محفوظ لڑکی وہ ہے جس کے خوابوں کے سفر پر اس کے باپ اور بھائی اس کا سہارا بنیں۔ حیا مارچ خوابوں کو پکڑ کر پیچھے کھینچنے والے لوگوں کا اور عورت مارچ ہاتھ چھڑا کر بھاگنے کی ترغیب دینے والا۔ دونوں ہی نامکمل اور ادھورے! ۔ محفوظ عورت وہ ہے جس کے خواب ادھورے یا ڈراؤنے نکل آئیں تو اس کے ساتھ کے مرد اس کا گلا مت گھونٹیں۔ اس کے لئے حیات تنگ نہ کر دیں بلکہ اس کے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو پھر سے جینا سکھائیں جو اسے بتا سکیں کہ کوئی بات نہیں ابھی غلطیاں سدھارنے کو ابھی عمر پڑی ہے۔

اذیت کے نیلامی، اور کلنک کے ٹیکوں کو ان کے ماتھے پر مت سجائیں۔ محفوظ عورت وہ ہے جس کا باپ اسے یہ نہ کہے کہ جہاں ڈولی جائے اب اس گھر سے تمھارا جنازہ ہی نکلے، بلکہ وہ ہے جس کا باپ اسے کہے کہ زندگی میں کبھی بھی ڈر لگے تو باپ کا گھر ہمیشہ کھلا ہے۔ مضبوط اور محفوظ عورت وہ ہے جسے لوگوں میں معتبر ٹھہرنے کے لئے بیاہا نہ جائے تا کہ سر سے بوجھ اترے، اور جسے معتبر ہونے کے لئے شادی کی ضرورت نہ ہو۔ وہ ہر حالت میں معتبر اور عزت کے قابل سمجھی جائے۔

جو لڑکی سماجی دباؤ سے جان چھڑانے کو تعلیم روزگار سے ہٹا کر بیاہی جائے وہ محفوظ و مضبوط نہیں، وہ تو غلامی کا شکار ہے۔ محفوظ و مضبوط عورت وہ ہے جو ہر روز خود کو یہ بتانے پر مجبور نہ ہو کہ یہ شخص جو میری بات نہیں سنتا، نہیں سمجھتا، میرا شوہر ہے۔ مجھے اس کی تابعداری کرنی ہے۔ یہ ایک سدھائی ہوئی کمزور عورت ہے جو اپنی بقا کی خاطر شوہر کی خاطر خود کو بدلنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ نہیں دراصل تباہ حال عورت ہے جو اس قدر توڑی گئی ہے کہ من و تو میں فرق تک نہیں کر پاتی۔

محفوظ و مضبوط عورت وہ ہے جس کی بات سنی جاتی ہو اور سمجھی گئی ہوں۔ جسے ازدواجی زندگی اور زندگی کا ساتھی کونین کی گولی کی طرح نگلنے نہ پڑتے ہوں۔ جسے اگر سنا نہ جائے تو رستہ بدلنے کی ہمت رکھتی ہو۔ یہی مضبوط اور محفوظ عورتوں کے کچھ کلیے نکاح نامہ پر بھی درج ہیں جن پر ہمارے ہاں بڑی عقیدت مندی سے کراس لگا دیا جاتا ہے۔ مضبوط اور محفوظ عورت وہ ہے جس کی منگنی ٹوٹ جائے یا نکاح، طلاق ہو جائے یا بیوہ، اس کے پاس ہمیشہ مسکرانے کا اور جینے کا حق ہو۔ جس کی زندگی کسی دوسرے فریق کی وجہ سے کاری نہ کر دی جائے۔ جسے اپنی مرضی کے وقت پر اپنی مرضی کا ہمسفر چننے یا چھوڑنے کا حق ہو اور کوئی بھی، کوئی بھی! اس کے حق پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

مضبوط اور محفوظ عورت وہ نہیں جو سالہا سال گھر کے اندر رہ کر روز مزے مزے کے کھانے بناتی ہو۔ مضبوط اور محفوظ عورت وہ ہے جو اپنی مرضی سے اپنی مرضی کا روزگار یا کاروبار اپنا سکے۔ جسے سگھڑ عورت اور اچھی عورت جیسے دیومالائی کہاوتوں سے پاگل نہ بنایا جا سکے، جس کے پاس زندگی کی ہر موڑ پر فیصلے کا اختیار ہو اور کسی بھی اخلاقی سماجی یا جذباتی ڈائیلاگ سے اس کے فیصلے کے حق کو منسوخ نہ کیا جا سکے۔ آپ فیصلہ کریں آپ تابع عورتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ محفوظ و مضبوط عورتیں۔ گھر کے اندر تعلیم روزگار اور کاروبار سے دور عورت تابع عورت ہے۔ اور جس کی تعلیم روزگار یا کاروبار میں آپ اس کے ساتھ کھڑے ہیں وہ مضبوط اور محفوظ عورت۔

مگر یہ تو ہو گئی ذاتی زندگی میں مضبوط عورت۔ گھر کے باہر کاروبار و روزگار میں بھی عورت محض اپنی طاقت کے بل پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جب تک آپ کے معاشرے کے مرد کو اس کے لئے ایک ایک محفوظ فاصلے پر رکھنے پر مجبور نہیں کر لیتے، جب تک آپ ان کی اندر یہ سوچ پیدا نہیں کر دیتے کہ گھر سے باہر بھی ان کو عورت کے لئے اتنا ہی مقام اور جگہ چھوڑنی ہے جتنی ان کو اپنی ذاتی زندگی میں چھوڑنی ہے تب تک عورت جتنی بھی مضبوط ہو جائے رہنا اسے بھیڑیوں کے چنگل میں ہی پڑے گا۔

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں جہاں تعلیم اور شعور کی سطح انتہائی کمتر ہو وہاں خالی قوانین سے، فائلوں میں اندراج کرنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ جہاں پورا معاشرے غلط بات کو صحیح سمجھنے پر مصر ہو وہاں خالی نعرے مارنے، قرار داد پیش کرنے یا قوانین بنانے سے بھی کچھ ہونے والا نہیں جب آپ پہلے ہی جانتے ہیں کہ اس معاشرے میں قانون کے عمل درآمد کا کوئی انتظام ہی نہیں۔

مضبوط عورت کسی بھی طرح باپ بھائی، شوہر کے ساتھ کے بغیر ممکن نہیں۔ نہ ان کی تابعداری میں رہ کر نہ ان کے خلاف ہو کر ۔ دراصل یہ تبدیلی عورت میں نہیں مردوں میں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی عورتوں کی بجائے مردوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی سوچ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تب ہی ہو گا جب تباہ حال عورتیں اپنے ٹراماز کو اپنے بچوں میں منتقل نہ کریں۔ جب توڑی ہوئی عورتیں نسل در نسل ٹوٹے ہوئے مرد پیدا نہ کریں۔

مائیں اپنی بیٹیوں کو تابعداری سکھائیں اور نہ بیٹوں کو حکمرانی۔ انسانوں کو انسان رہنے دیں۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں، ہماری تعلیم اور تربیت کے ہر ادارے میں مردوں کی سوچ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاشرے کے مرد کی سوچ بدلے گی تبھی اس کا نظام بھی بدلے گا اور عورت اپنے گھر، گلی محلے اور کام کی جگہ پر محفوظ ہو گی۔ تبھی عورت اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے گی۔ ورنہ عورت مارچ پر پتھراؤ ہوتے رہیں گے اور گھروں اور گلیوں میں باپ اور بھائی عورت مارچ کو گالیاں نکال کر اپنی عورتوں کو ہراساں کرتے رہیں گے۔ معاشرے کو مزید انتہاؤں کی طرف دھکیلنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

محفوظ اور مضبوط عورت بنائیں۔ معاشرے میں تبدیلی کے لئے کام کریں بگاڑ کے لئے نہیں۔ انسانوں کو جمع کر کے طاقت بنائیں ان کو توڑ کر کمزور نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).