کیا سوال پوچھنے کی اجازت ہے؟


پشاور دھماکے کی خبر دیکھی تو قصہ خوانی بازار کی رونق وہاں کی چہل پہل، معصوم بچے، خریداری کرتی خواتین، رکھ رکھاؤ والے دکاندار، قسم ہا قسم کے کھانے، چپلی کباب، پٹا تکہ (دنبے کی چربی میں لپٹے تکے ) ایک ثانیے میں نظروں سے گزر گئے، ابھی دو ماہ پہلے ہی دسمبر میں پشاور شہر دیکھنے کا پروگرام بن گیا تھا۔ پشاور کا ہمارا یہ پہلا سفر تھا ایک تو بچوں کو سیر کروانا تھی اور دوسرے ایک بہت نفیس اور پیارے دوست یاسر ہلال سے پانچ سال قبل کیے گئے وعدے کو نبھانا تھا۔

یاسر نے کمال محبت سے پشاور کی سیر کروائی۔ قصہ خوانی بازار، جس سے ہماری شناسائی صرف قصے کہانیوں اور اخبارات کے توسط سے ہی تھی، ہمارے سامنے تھا۔ گاڑی دور پارک کر کے چلتے چلتے شہر کے تاریخی حصے میں تھے جہاں تاریخ کے کئی ساہوکاروں اور سیٹھوں کی عظمت اب تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکی ہے۔ سیٹھیاں دی حویلی عہد رفتہ کی مخدوش نشانیوں کے طور پر ایستادہ ہے۔ قصہ خوانی بازار میں گاڑی لے کر جانے والے کو بہت مشکل ہوتی ہے جبکہ پیدل چلنا بھی اتنا آسان نہیں کیونکہ صحیح معنوں میں کھوئے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔

ساٹھ سے زائد میتیں، دو صد کے قریب زخمی، جن میں ایک بڑی تعداد تشویشناک حد تک زخمی، قصہ خوانی بازار جہاں تک گاڑی کو لے جانا مشکل ترین کاموں میں سے ہے اور وہ بھی رش کے اوقات میں۔ ایسے میں نمازیوں پر ٹوٹنے والی قیامت کا سماں۔ چشم تصور میں اپنے آپ کو وہاں کھڑا پاتا ہوں تو سوچ سوچ کر حالت خراب ہونے لگتی ہے کہ کس طرح لوگوں کے سامنے تڑپتے انسان پڑے تھے لیکن ان کو بروقت طبی امداد ملنا مشکل تھا۔ نعشوں کو اٹھانا، زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا کتنا مشکل ہو گا۔ ایک لمحے کو سوچیں آپ کا کوئی پیارا شدید زخمی ہو، بہتے خون اور دم بدم بے جان ہوتے وجود کو اٹھا کر کوئی پانچ چھ سو میٹر بھاگنا پڑے۔ کسی گاڑی کی تلاش میں، طبی امداد کی تلاش میں۔ تو کیسا محسوس ہو گا۔ وہ کرب کتنا اذیت ناک ہے جس کو قلم بیان کرنے سے عاجز آ جاتا ہے۔

ایک دفعہ پھر مسجد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مرنے والے اپنے رب کے حضور عبادت کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کے لئے اپنی پیشانی اس کے در پر جھکانے کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ کئی جلدی واپس جانے کے خواہاں تھے۔ کئی جمعہ کے فوراً بعد اپنے کام کاج، گھر اور دوسری مصروفیت کی طرف لوٹنے والے تھے۔ وہ ننھے بچے جو انتظار میں تھے کہ بابا جمعہ کے بعد ہمیں سکول سے لینے آ جائیں گے۔ پر بابا تو اس منزل کی طرف رواں ہو گئے یا کر دیے گئے جہاں سے کوئی آج تک پلٹ نہ سکا۔

ایک دفعہ پھر اپنی خود ساختہ جنت کی تلاش میں سرگرداں کوئی نادان استعمال ہو گیا۔ اس کے آقا خوشی سے نہال ہیں کہ نشانہ ٹارگٹ پر لگا۔ ایسے آقا جن کی کامیابی کا پیمانہ مرنے والوں کی تعداد طے کرتی ہے۔ جتنے زیادہ ”کافر“ مارے گئے اتنا بڑا کامیابی کا جشن۔ جس نے زیادہ مارے اس کی بہادری کے قصے اتنے ہی زیادہ سنائیں جائیں گے۔ نئے آنے والے ”بچوں“ کو بتایا جائے گا کہ قصہ خوانی میں اصل قصہ تو فلاں ابن فلاں نے رقم کیا تھا۔ اصل قصہ تو وہ ہے جس میں ساٹھ سے زائد ”کافر“ ”واصل جہنم“ ہوئے تھے۔ العیاذ باللہ۔

ایک سوال پوچھنا ہے۔ ہم بحیثیت قوم کب تک انسانی جان کی قدرو قیمت مذہب، عقیدے اور مسلک کی بنا پر طے کرتے رہیں گے۔ وہ کون سا دن ہو گا جب ہم عیسائی، احمدی، یہودی، ہندو، سکھ کو اس کے مذہب اور عقیدے کے ترازو میں طول کر نہیں بلکہ بطور ایک انسان، ہاں ہمارے ہی جیسے ایک جیتے جاگتے انسان کے روپ میں دیکھنا سیکھ پائیں گے۔ ؟ کیا ایسا سوال پوچھنے کی اجازت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments