مہنگائی بڑھائی کیوں جاتی ہے؟


اپوزیشن اور میڈیا صبح سے شام تک چیخ چیخ کر مہنگائی مہنگائی کرتا رہتا ہے، سب کو پتہ ہے اگر نہیں پتہ تو صرف وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیروں کو نہیں پتہ کہ ملک میں انتہا درجے کی مہنگائی نے درمیانے اور نچلے طبقات کو پیس کے رکھ دیا ہے، مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں، منشیات کا استعمال اور سٹریٹ کرائم خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اگر حکومتی مشیر مہنگائی کا اعتراف کر بھی لے تو یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا جاتا ہے کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر مہنگائی کی لہر چل رہی ہے ہم کیا کر سکتے ہیں۔

بالفرض اگر پاکستان میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری مہنگائی دراصل بین الاقوامی مہنگائی کا نتیجہ ہے (جو ہرگز درست نہیں ) تب بھی یہ کہنا کہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی، کتنا نامناسب ہو گا۔ حکومتیں کبھی بے بسی کا اظہار نہیں کیا کرتیں، پھر عوام اور حکومت میں کیا فرق باقی رہے گا۔ آج حکومت کہہ رہی ہے پاکستان میں مہنگائی دراصل بین الاقوامی مہنگائی کا نتیجہ ہے، کل کلاں حکومت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ زلزلے اور سیلاب قدرتی آفات ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں، کتنی نامناسب ہوگی حکومت کی یہ بات۔

حالانکہ جس طرح کوئی بھی حکومت سیلاب اور زلزلے میں اپنے عوام کو ریسکیو کرنے، ریلیف فراہم کرنے اور ان کی بحالی میں مدد کرنے کی پابند ہوتی ہے اسی طرح عوام کو مہنگائی کی آفت سے بچانا بھی ضروری ہے۔ عام طور پر اس کے دو طریقے ہوتے ہیں، اول یہ کہ حکومت کھانے پینے کی و دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں پر کمزور طبقات کے لئے سبسڈی کا اعلان کرتی ہے، دوئم یہ کہ حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کم آمدنی والے طبقات کی آمدنی میں اضافہ کے لئے خصوصی اقدامات کرتی ہے۔

مگر (آج کا) اہم سوال یہ ہے، کیا پاکستان میں گزشتہ تین سال سے بڑھتی ہوئی مہنگائی عالمی گرانی کا شاخسانہ ہے یا پھر مصنوعی۔ اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اگست 2018 سے فروری 2022 کے دوران کھانے پینے کی اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک پہنچیں۔ محکمہ شماریات جو قیمتوں کے اعشاریے مرتب کرنے والا ادارہ ہے، اس کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ماہوار رپورٹوں سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 52 ضروری استعمال کی اشیا کی باسکٹ (جس میں آٹا، چاول، گھی، سبزیاں، دالیں، تیل، گیس، بجلی وغیرہ شامل ہیں ) کی قیمت جو کہ اگست 2018 میں 10 ہزار 731 روپے تھی، بڑھ کر فروری 2022 میں 17 ہزار 920 روپے ہو گئی ہے۔

اس طرح موجودہ حکومت کے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران مہنگائی میں 67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جن اشیا کی قیمت سب سے زیادہ بڑھی ان میں سرخ مرچ 262 فیصد، بجلی 256 فیصد، کپڑے دھونے والا صابن 180 فیصد، گھی 170 فیصد، کوکنگ آئل 136 فیصد، لہسن 192 فیصد، نمک 188 فیصد، ٹماٹر 102 فیصد، دال مسور 90 فیصد، دال ماش 86 فیصد، گڑ 68 فیصد، چینی 61 فیصد، آٹا 66 فیصد، مرغی (شیور) 81 فیصد، بڑا گوشت 59 فیصد، چھوٹا گوشت 54 فیصد، انڈے (فارمی) 63 فیصد، پٹرول 61 فیصد، ماچس 58 فیصد ور ایل پی جی 47 فیصد مہنگی ہوئی۔

دوسری جانب حکومتی مشیر اپنی حکومت کی معاشی کامیابیاں گنواتے نہیں تھکتے خاص طور پر برآمدات میں اضافے کو لے کر بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق روان مالی سال ( جولائی 2021 تا جنوری 2022 ) کے دوران برآمدات کا حجم 17 ارب 74 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا جبکہ گزشتہ (نون لیگ) حکومت کے آخری مالی سال کے سات ماہ (جولائی 2017 تا جنوری 2018 ) کے دوران برآمدات کا حجم 12 ارب 94 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھا اور اس طرح (واقعی) موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال میں برآمدات میں 37 فیصد کا خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

لیکن مذکورہ عرصے میں ہماری درآمدات 34 ارب 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 46 ارب 61 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ نتیجتاً تجارتی خسارہ 21 ارب 32 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 28 ارب 87 کروڑ 20 لاکھ ڈالر پر جا پہنچا، یعنی موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال میں تجارتی خسارہ 7 ارب 54 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ( 35 فیصد) بڑھا ہے۔ با لفاظ دیگر موجودہ حکومت کے دور میں اگر برآمدات بڑھنے سے پاکستان کو 4 ارب 80 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اضافی ملے تو ہم نے مختلف ممالک کو درآمدات کی مد میں 12 ارب 35 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اضافی ادا کیے۔

خیال رہے کہ یہ معاشی تجزیہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کی بنیاد پر ہے، موجودہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی کا حقیقی تجزیہ تو یکم جولائی 2021 تا 30 جون 2022 کے معاشی اعداد و شمار آنے پر ہی کیا جا سکے گا اور تب پتہ چلے گا کہ تبدیلی سستی پڑی ہے یا مہنگی!

تاہم درآمدات میں اضافے کے حالیہ رجحان کو دیکھتے ہوئے بآسانی تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک تجارتی خسارے میں اضافہ 10 ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کر جائے گا۔

مہنگائی میں اضافے کے اسباب و علل جیسے بنیادی سوال کے ساتھ یہ سوال بھی جڑا ہوا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں دو گنا اضافے کی وجوہات کیا ہیں۔ جہاں تک مہنگائی یا افراط زر کا سوال ہے تو سب جانتے ہیں کہ اس کے پانچ بنیادی اسباب ہیں، موجودہ حکومت نے آتے ہی ملکی کرنسی کی قدر گرا دی نتیجتاً ڈالر 112 روپے سے بڑھ کر 177 روپے کا ہو گیا، بینکوں کی شرح سود (پالیسی ریٹ) کو 6 اعشاریہ 25 فیصد سے بڑھا کر 13 اعشاریہ 25 پر پہنچا دیا ( جو اب بھی پونے دس فیصد ہے ) ، پیٹرول 78 روپے سے بڑھا کر 150 روپے لیٹر کر دیا، بجلی 2 روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 7 اعشاریہ 12 روپے یونٹ جبکہ گیس کی قیمت ( 100 مکعب میٹر ماہوار) 82 روپے سے بڑھا کر 300 روپے کردی گئی۔ اگر مذکورہ پانچ اشیا کی قیمتیں واپس جولائی 2018 کی سطح پر آ جائیں تو یقیناً تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی 2018 کی سطح پر ہی آ جائیں گی۔

یہاں ہم نے مہنگائی میں اضافے کی وجوہات تو جان لی تاہم یہ سوال تو اب بھی موجود ہے کہ اس حکومت کو مذکورہ بالا پانچ اشیا کی قیمت بڑھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تاہم اس کی آج تک حکومت بھی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکی۔ حالانکہ کہنے کو تو بجلی، گیس و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی بہت ساری وجوہات بتائی جا سکتی ہیں، مثال کے طور پر گردشی قرضے کو حد اعتدال میں لانے کے لئے بجلی مہنگی کرنا حکومت کی مجبوری تھی، عالمی منڈی میں خام تیل 75 ڈالر سے بڑھ کر 90 ڈالر فی بیرل ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سوال کہ کیا قیمتیں بڑھانے سے بجلی کا گردشی قرضہ معتدل ہوا، کیا اوگرا ہمیں 90 ڈالر فی بیرل کے حساب سے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت مقرر کرنے کا فارمولہ بتا سکتا ہے تو جواب ندارد ہے۔ حالانکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اوگرا کے خلاف میری اپیل زیر التوا ہے۔

مگر روپے کی قدر گرانے اور بینکوں کی شرح سود بڑھانے کے حوالے سے حکومت کی کیا مجبوری ہو سکتی ہے، اس سوال کا جواب نہ تو وزیراعظم عمران خان دیتے ہیں اور نہ ان کا کوئی مشیر! تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ حکومت کے چار سال مکمل ہونے پر تجارتی خسارے میں اضافہ 10 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہو گا!

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا مہنگائی اور درآمدات میں اضافے کا آپسی تعلق کیسے اور کیونکر ہو سکتا ہے، دراصل یہی وہ تعلق ہے جو پہیلی کو حل کرتا ہے۔

براہ مہربانی تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے سوچیں، جب آپ خریداری کے لئے مارکیٹ جاتے ہیں تو خورد و نوش کی اشیا سمیت دیگر روز مرہ استعمال کی اشیا اور الیکٹرانکس کی خریداری تک آپ کی ترجیح چیزوں کا معیار ہوتا ہے، مگر سب کو معلوم ہے کہ اعلیٰ معیار کی اشیا مہنگی ہوتی ہیں کیونکہ وہ امپورٹڈ ہوتی ہیں، جبکہ سستی اشیا لوکل ہوتی ہیں اور ان کا معیار بھی کم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود درمیانہ اور سفید پوش طبقہ کے زیادہ تر لوگ کم معیار کی لوکل اشیا خریدنے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں کیونکہ امپورٹڈ اشیا کے مقابلے میں ان کی قیمت کافی کم ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر مارکیٹ میں امپورٹڈ کوکنگ آئل اور پاکستان میں تیار ہونے والے ’ڈالڈا یا صوفی‘ کی قیمت میں نصف سے بھی زیادہ کا فرق ہے، حالانکہ یہ جانتے ہوئے کہ امپورٹڈ کوکنگ آئل اعلیٰ معیار کا ہو گا پھر بھی 80 فیصد سے زائد لوگ ڈالڈا یا صوفی کوکنگ آئل یا اس سے بھی کم قیمت والا لوکل کوکنگ آئل خریدتے ہیں، کیونکہ وہ امپورٹڈ کے مقابلے میں سستا ملتا ہے۔ اگر وہی امپورٹڈ کوکنگ آئل ڈیوٹی فری ہو جائے تو اس کی قیمت لوکل ڈالڈا یا صوفی کوکنگ آئل کے قریب آ جائے گی اور پھر سب وہی امپورٹڈ خرید رہے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ حکومت (منصوبہ بندی کے تحت) لوکل کوکنگ آئل کو مہنگا کر کے اس کی قیمت امپورٹڈ کے قریب تر لے جائے تو پھر خریدار سوچے گا کہ جب مہنگا ہی خریدنا ہے تو معیاری امپورٹڈ کیوں نہ خریدوں؟

اگر مہنگائی اور درآمدات میں اضافے کے (گزشتہ ساڑھے تین سال کے ) اعدا و شمار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کیا یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ موجودہ حکومت نے (سوچے سمجھے منصوبے کے تحت) مقامی سطح پر پیدا/ تیار ہونے والی اشیا کو اس حد تک مہنگا کر دیا کہ ان کی قیمتیں مہنگی امپورٹڈ اشیا سے بڑھ گئی ہیں، اور یہ سب آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے کی وجہ سے ہوا۔ نتیجتاً ملک کے اندر درآمدی اشیا کی کھپت بڑھنے سے درآمدات بھی بڑھ گئی۔ لہٰذا گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران جہاں حکومت نے کرنسی ڈی ویلیو کر کے برآمدات پانچ ارب ڈالر بڑھائی وہیں درآمدات میں 14 سے 15 ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا۔ نتیجتاً ہم اپنے امپورٹنگ ممالک کو سالانہ 10 ارب ڈالر اضافی دے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ موجودہ جدید دور میں جنگ صرف معاشی مفادات کی جنگ رہ گئی ہے، جس کی بنیاد پر ملکوں کے مابین تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔ بڑی طاقتوں اور ترقی یافتہ ممالک کے معاشی مفادات کو تحفظ نہ دینے یا انہیں نقصان پہنچانے والے کمزور و ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کو اول تو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، لالچ دیا جاتا ہے، اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو ایسی ایسی سازشیں کر کے انہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے کہ کسی کو سازش کا گماں تک نہیں ہوتا، پھر ان کی جگہ ایسے لوگوں کو مسند اقتدار پہ بٹھا دیا جاتا ہے جو اصلاح کے نام پر ترقی یافتہ معیشتوں کو مالی فائدہ دیتے رہیں اور اپنے عوام کا تیل نکالتے رہیں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments