روس یوکرین جنگ: سکے کا دوسرا رخ


اس وقت عالمی بساط پر بھی ایک بڑی بازی جاری ہے۔ روس اور یوکرین پیش منظر پر مگر اصل کھلاڑی پس منظر میں ہیں۔ یہ جنگ دو ملکوں کی نہیں بلکہ دو نظریات، مفادات کی جنگ ہے، مغرب کی نمائندگی روس اور مشرق کی چین کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ کا اصل نشانہ چین ہے، چین کی تیزی سے بڑھتی معاشی ترقی اور عالمی اثرات کے باعث مغرب پیچیدہ چالوں سے چین کو شہ مات دینا چاہتا ہے۔ یوکرین میں نیٹو فوجی اڈوں کا قیام، شطرنج کی بساط پر ایسی چال ہے جس میں آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ مقابل جواب کیا دے گا۔

دنیا پر مغرب کی بالادستی کی عمارت سرمایہ داری نظام پر کھڑی ہے، اب ایک کمیونسٹ معیشت کیپٹلزم کو شکست دے رہی ہے۔ چین جس تیزی کے ساتھ عالمی تجارت پر قبضہ جما رہا ہے، ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے دنیا کو جوڑ رہا ہے، امریکہ اور یورپ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ عالمی بالادستی کا خاتمہ بہت قریب نہ سہی مگر اتنی دور بھی نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا بیانیہ مغرب طے کرتا ہے، سو مغربی میڈیا منہ بھر بھر کے روس کو سفاک ظالم اور یوکرین کو مظلوم مسکین بتا رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اسی ڈگر پر ہے، حقیقت جانے بغیر بڑے بڑے بقراط ٹاک شوز میں مغربی میڈیا سے دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔ عالمی امور و عسکری ماہرین، سیاسی تجزیہ کار مغربی بیانیے میں رنگ و نور بکھیر کر جھوٹے بیانیے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ ذرا سکے کے دوسرے رخ کا جائزہ لیتے ہیں، روس جیسے بڑے ملک سے جڑی چھوٹی ریاست یوکرین مشرقی یورپ کا حصہ ہے۔ اس سے پہلے یوکرین میں روس نواز حکومتیں رہی ہیں۔ ولادیمیر زیلنسکی ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں، پروفیشنل اداکار جو ایک ڈرامے میں انقلابی کردار کے ذریعے مقبول ہوئے اور بھاری اکثریت سے صدر بنے۔ یورپ اور امریکہ پہلے بھی روس سے جڑی ریاستوں کو سیکورٹی رسک بنانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، زیلنسکی آسان نشانہ تھے سو یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت، بھاری امداد کا لالچ دے کر نیٹو فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت دینے پر قائل کر لیا۔ امریکہ اور یورپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ روس کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کے دروازے پر نیٹو فوجی اڈے قائم کیے جائیں اور فوری رد عمل دے گا، جو یقینی طور پر جنگ کی صورت میں ہو گا۔ مغرب نے یہ قدم ایک ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا ہے، مغرب اس قدم کے نتائج سے بھی بخوبی واقف تھا، یہی رد عمل متوقع تھا، نقصان روس اور یوکرین کا ہونا ہے یا پھر عالمی معیشت کا، ایک سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اب روس کو نہ صرف عالمی مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے بلکہ کڑی اقتصادی ناکہ بندی بھی ہو گی۔

جنگ کی حمایت یقیناً نہیں کی جا سکتی خواہ امریکہ کی ہو یا روس کی، مگر اصول ایک ہونا چاہیے۔ جانے کیوں امریکہ افغانستان یا عراق میں جنگ کرے تو مغربی میڈیا اسے انسان دوست، عالمی امن کی ضمانت کے طور پر پیش کرتا ہے، روس سمیت کوئی اور ملک کرے تو انسان دشمن، عالمی امن کو خراب کرنے کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔ روس یوکرین کے حوالے سے انٹرویو دیتے ہوئے معروف دانشور ناؤم چومسکی کا تجزیہ قابل غور ہے، کہتے ہیں ”امریکہ نے روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی، یوکرین نے پارلیمانی قرارداد کے ذریعے نیٹو اتحادی بننے کی خواہش کا اظہار کیا، اس صورتحال میں روس کا قائد کوئی بھی ہو، کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ یوکرین کسی بھی دشمن فوجی اتحاد (نیٹو) کا حصہ بنے، ایک لمحے کو سوچیں اگر میکسیکو یا کینیڈا روسی فوجی اتحاد کا حصہ بننے پر آمادہ ہوں تو امریکہ کیا کرے گا“ ۔ صرف نوم چومسکی کی بات نہیں، ذرا عالمی میڈیا یا گوگل چھان لیں، مغرب کے بڑے بڑے ماہرین جنگ کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرا رہے ہیں۔ چلیں ذرا تاریخ کا بھی جائزہ لے لیں، اس طرح کی صورتحال میں امریکہ کب کب، کیا کچھ کر چکا ہے، 1962 میں جب کیوبا نے رشین میزائل لانچ کیے، تو امریکہ کا رد عمل اتنا خوفناک تھا کہ دنیا دو ہفتے ایٹمی جنگ کے خدشے سے دوچار رہی، وجہ یہ تھی کہ کیوبا اور فلوریڈا کے بیچ صرف سمندر ہے، تاریخ میں اسے کیوبن میزائل کرائسس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صدر ریگن کے دور میں گرینیڈا میں کمیونزم کا خدشہ تھا لہذا امریکہ نے گرینیڈا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، گرینیڈا وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے، یوکرین سے کہیں زیادہ چھوٹا، چلی میں مارکسسٹ حکومت بنی تو سلواڈور آلاندے کا تختہ الٹ کر امریکہ نے فوجی آمر جنرل پنوشے کو صدر بنوا دیا۔ آج بھی وسطی امریکہ جو سپر پاور سے جڑا خطہ ہے، کوئی حکومت امریکہ مخالف نظریات کے ساتھ ممکن نہیں ہے، تو یہی فارمولا وسطی ایشیائی اور مشرقی یورپ میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ روس سے جڑے علاقوں میں کوئی ملک مخالف یا دشمن نظریات کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ یوکرین کے علاوہ مشرقی یورپ میں پولینڈ، ہنگری، چیکوسلواکیہ، بلغاریہ، رومانیہ جیسے ممالک ہیں، سرد جنگ دور میں یہ خطہ ہمیشہ روس کے زیر اثر رہا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو روس اپنا دفاع کر رہا ہے، یوکرین میں نیٹو کے فوجی اڈے بسانے کے شاطرانہ چال کا جواب طاقت کا استعمال ہی بنتا ہے۔ یہ بھی بہرحال طے ہے کہ اس جنگ میں یورپ یا امریکہ نہیں کودے گا، مغرب دوسری جنگ عظیم کے بعد طے کر چکا ہے کہ اس خطے میں جنگ نہیں کی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ پراکسی وار کا نشانہ ایشیا ہے، ایران، عراق، شام، افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

مغرب دنیا میں چین کے بڑھتے اثرات سے پریشان ہے، اتنا پریشان کہ یورپ اور امریکی منڈیاں بھی اب چین کے قبضے میں ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ مغرب کے لئے ایک بھیانک خواب ہے۔ ابتدائی طور پر چین کا علاقائی اور بالآخر عالمی اتحاد ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے، کمیونسٹ معیشت کیپٹلزم کو نگلنے پر تیار ہے۔ مغرب روس کو کو نشانہ بنا کر چین کو خطرے کا پیغام دینا چاہتا ہے۔ روس کو دنیا سے کاٹ کر چین کو خبردار کرنا چاہتا ہے، چین کے علاقائی اتحاد کا خواب چکناچور کرنا چاہتا ہے۔ مغربی میڈیا اپنے مفادات پر مبنی بیانیہ دکھا رہا ہے مگر ہمارا میڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ہمارا میڈیا تصویر کا حقیقی رخ کیوں پیش نہیں کر رہا جبکہ اس کے مفادات مغرب کے ساتھ نہیں بلکہ خطے کے ساتھ جڑے ہیں۔

دنیا ایک اور سرد جنگ میں داخل ہو چکی ہے اور بہت جلد دو حصوں میں تقسیم نظر آئے گی۔ سپر پاور کو سپر پاور رہنے کے لئے مستقل و مسلسل دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، خوف کا کاروبار نہ ہو تو سپر پاور کا دبدبہ ختم ہو جاتا ہے، دہشت پھیلانا بھی مسیحائی اور مٹانا بھی، دنیا کو مسلسل خوف میں گرفتار رکھنا ہی عالمی طاقت کی خاصیت ہوا کرتی ہے۔ روس یوکرین جنگ کی صورت میں امریکہ دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی طرف لے جا رہا ہے مگر اس جنگ کا اصل ہدف عالمی معاشی میدان ہے، جہاں چین اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔

افغانستان اور عراق سے امریکہ نکل گیا، کیوں اور کیسے نکلا یہ ایک طویل داستان ہے، شام میں دال نہ گلی، گویا سپر پاور کے پاس اب ایسا کوئی دشمن نہ تھا جس کے ذریعے دنیا کو طاقت سے مرعوب رکھا جائے۔ سپر پاور بننا آسان مگر اس منصب پر رہنا ہر روز ایک چیلنج ہے۔ سپر پاور کو ایک نئے دشمنی کی تلاش ہے، امریکہ نے روس یوکرین جنگ کا طبل ایک کثیر جہتی نتائج کے لئے منظم منصوبے کے تحت بجایا ہے۔ ہم اس حوالے سے مفصل بات کر چکے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کے منصوبے کا اصل ہدف روس نہیں بلکہ چین ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکہ نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش کر چکا ہے مگر یورپ نے مخالفت کی، اب چند سال بعد یہ کوشش پھر کی گئی، اس بار یورپ ساتھ تھا اور مقصد یہی تھا کہ جب روس کا عسکری گھیراؤ کیا جائے گا تو ماضی کی سپر پاور فوری رد عمل دیگی۔ اس جنگ میں یورپ اور امریکہ براہ راست کبھی نہیں کودیں گے مگر یہ ضرور ہے کہ دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ضرور ہو جائے گا۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کہتے ہیں 242 سال کی تاریخ میں امریکہ کی قسمت میں صرف 16 سال ایسے ہیں جب مکمل امن رہا، گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ مسلسل عالمی محاذوں پر مصروف رہا ہے۔ جدید تاریخ میں سرد جنگ، پراکسی وارز اسی عمل کا حصہ ہیں۔

صرف 2001 سے اب تک امریکہ جنگوں پر 8 ٹریلین ڈالرز خرچ کر چکا ہے، معیشت زبردست خسارے کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ جان چھڑا کر ان جنگوں سے باہر نکلا ہے جن میں براہ راست شامل تھا۔ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت کے بغیر سپر پاور رہنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چین کی تجارتی و معاشی ترقی کا سفر 1979 میں شروع ہوا اور جس وقت امریکہ اپنے وسائل جنگوں پر خرچ کر رہا تھا چین مسلسل معاشی ترقی حاصل کرتا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین سالانہ ڈھائی ٹریلین ڈالرز کا سامان دنیا کو فروخت کرتا ہے، امریکہ اور یورپ اس کے سب سے بڑے خریدار ہیں، ٹیکنالوجی میں مغرب سے فرق تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آئندہ چند عشروں میں عالمی اقتصادیات کی قیادت چین کے پاس ہو گی۔ 500 کی جدوجہد کے بعد آج چین دنیا کی بڑی قوت ہے، اتنی بڑی کے غلام بنانے والے ممالک اس کی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہیں۔

پہلے امریکہ کو سب سے زیادہ خطرہ روس سے تھا، 50 کی دہائی میں شروع ہونے والی سرد جنگ 40 سال بعد روس ٹوٹنے پر ختم ہوئی۔ امریکہ اور روس دنیا کے لئے سپر پاور تھے، جنگ، ہتھیار، ایٹمی صلاحیت، میزائل ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ بالآخر مغرب جیت گیا، کمیونسٹ خطرہ ختم، دنیا کی واحد سپر پاور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ یہ جنگ جیت گئی۔ سابق امریکہ صدر جمی کارٹر کہتے ہیں ”242 سالہ تاریخ میں امریکہ کی قسمت میں صرف 16 سال ایسے ہیں جب مکمل امن تھا۔“ اس مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ سپر پاور بننے کے لئے مسلسل روایتی جنگوں میں مصروف رہا ہے، براہ راست یا بیشتر پراکسی وارز اور سرد جنگ، امریکہ اور یورپ روایتی جنگوں کا فائدہ اٹھانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں مگر اس بار میدان اور ہتھیار مختلف ہیں، معاشی میدان میں روایتی تجربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ چین اور امریکہ یہ جنگ خاصی مختلف ہے، چین کبھی دنیا پر اپنی طاقت جتانے کے لئے جنگ میں نہیں کودا بلکہ امریکہ کے برعکس ساری توجہ معاشی و تکنیکی محاذ پر رکھی۔ چین عالمی معیشت میں امریکہ سے بڑا کھلاڑی بن چکا ہے، روس اور چین کمزور ہوتے نیو ورلڈ آرڈر کے لئے بڑا خطرہ بن رہے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کا ذہن واضح ہے کہ اگر چین کا راستہ نہیں روکا گیا تو بہت جلد عالمی چوہدراہٹ کا خاتمہ ہو جائے گا چونکہ آج کے دور میں سپر پاور رہنے کے لئے سب سے بڑا ہتھیار اکنامک لیڈر شپ ہے۔

چین اور امریکہ کا مقابلہ کریں تو بچپن میں سنائی گئی کہانی یاد آ جاتی ہے، کچھوے اور خرگوش کی، آج اس کہانی میں چین کچھوا اور امریکہ خرگوش ہے۔ چین نہایت سست روی مگر استقامت کے ساتھ معاشی محاذوں پر قبضہ کر چکا ہے۔ امریکہ اپنی جارحیت اور تیزی کے باعث معاشی میدان میں دیوالیہ سیٹھ کی طرح سر پکڑے بیٹھا ہے۔ اس صورتحال میں چین، یورپ اور امریکہ کا مشترکہ دشمن ہے۔ چین علاقائی اتحاد کی جانب بڑھ رہا ہے جس کی بنیاد معاشی ترقی ہے، ممکنہ اتحادیوں میں روس، ترکی، پاکستان، ایران، وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اگلے مرحلے میں ون بیلٹ، ون روڈ، جس میں ممکنہ طور پر دنیا کے 64 سے 78 ممالک شریک ہو جائیں گے۔ ایک ایسا عالمی منصوبہ جو دنیا بھر کو چین سے جوڑ دے گا۔ مغرب کا خدشہ بے جا نہیں کہ نہ صرف امریکہ اور یورپ کی بالادستی خطرے میں ہے بلکہ معیشت بھی خدشات سے دوچار ہے، عالمی چوہدراہٹ کا خاتمہ مغرب کے لئے خوف کی علامت ہے۔ چین امریکہ سرد جنگ کا آغاز ٹرمپ دور میں ہوا جہاں امریکہ اور یورپ نے چین پر غیر معمولی اقتصادی پابندیاں عائد کیں، اب جو بائیڈن بھی انہی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے جس میں انہیں یورپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

مغرب کے لئے چین کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹ معیشت، سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے ایک طویل جنگ لڑ کر دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا ہے اور یہی مغرب کی بقا کی ضمانت ہے۔ اس صورتحال میں چین ہر ہر معاشی محاذ پر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دے رہا ہے، ٹیکنالوجی میں مغربی برتری کو چیلنج کر رہا ہے۔ یوکرین جیسے چھوٹے سے ملک کو لالچ دے کر روس جیسے بڑے ملک کے دروازے پر نیٹو فوجی اڈوں کے قیام کی کوشش سے وہی نتائج برامد ہوئے ہیں جو مغرب کی سازش کے مطلوبہ اہداف تھے۔ روس پر اقتصادی پابندیاں، درحقیقت چین کے لئے پیغام ہے، چین کے معاشی اتحاد کو روکنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے شہروں میں چینی مصنوعات کی بھر مار ہے، مغرب کے بڑے بڑے کاروباری ادارے چینی سرمایہ دار خرید چکے ہیں۔

40 سالہ روس امریکہ سرد جنگ کے بعد دنیا ایک اور سرد جنگ میں داخل ہو چکی ہے، گویا دنیا ایک بار پھر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آئے گی، شاید ابھی مزید جنگیں چھیڑی جائیں، روس، یوکرین کی طرح پراکسی وارز کا بازار گرم ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے سپر پاور کی حیثیت میں روایتی جنگوں سے خاصا فائدہ اٹھایا ہے مگر اس بار میدان مختلف ہے، معاشی محاذ پر امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سمیت چین کا مقابلہ کرنے میں سنگین ناکامی کا شکار ہے۔ چین کو بطور سپر پاور کب تسلیم کیا جاتا ہے یہ فیصلہ تو وقت کرے گا مگر یہ طے ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ مغرب، چین کا راستہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہا ہے۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نئی سرد جنگ بھی خاصی مختلف ہو گی چونکہ آج کی دنیا نظریات سے نہیں بلکہ معاشی مفادات سے جڑی ہے، یہی وہ نکتہ ہے جہاں امریکہ چین کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ بقول تاجدار عادل

وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments