محمد رفیق تارڑ بھی رخصت ہو گئے


محمد رفیق تارڑ بھی رخصت ہو گئے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

کیا بھر پور شخصیت تھی۔ اپنے انداز میں یکتا، اپنے ڈھب میں منفرد، اپنے اسلوب میں بے مثل، اپنے اطوار میں بے لچک، اپنے اصولوں میں پختہ کار۔ ان کے بارے میں نہ جانے کیسی کیسی کہانیاں گھڑی گئیں۔ ان کے دامن پر کیسے کیسے داغ تھوپے گئے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ رفیق تارڑ ان میں سے تھے جن کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیا۔ پوری طرح جانا اور جانچا ہی نہیں گیا۔ میں نے ایوان صدر میں ساڑھے تین برس ان کے ساتھ ان کی معیت اور ان کی رفاقت میں گزارے۔ کوئی انسان لغزشوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک نہیں ہوتا۔ یہ بشریت کا تقاضائے اولین ہے۔ رفیق تارڑ بھی ان سے مبرا نہ تھے۔ لیکن ان کی خوبیوں کا پلڑا بہت بھاری تھا۔

کسی سے خفا ہوتے تو مروت کے رسمی تقاضوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہاتھ تک نہ ملاتے۔ اسے منافقت کا نام دیتے تھے کہ کسی آدمی کو ناپسند کیا جائے اور مسکراتے ہوئے اس سے جپھیاں ڈالی جائیں۔ میں نے انہیں کھردرے پن کی حد تک کھرا دیکھا۔ کبھی کبھی بے تکلف لمحات میں نشاندہی بھی کر دیتا تھا لیکن وہ ہٹ کے پکے تھے۔ گرہ پڑ گئی تو پڑ گئی۔ لگی لپٹی بغیر منہ پر اٹل کھری بات کرنا ان کا شیوہ تھا۔ سو بیگانے تو نا خوش تھے ہی اپنے بھی ان سے خفا خفا ہی رہتے تھے۔ بظاہر بہت ہی سنجیدہ اور خوش رو دکھائی دینے کے باوجود بلا کے خوش گفتار اور بذلہ سنج تھے۔ لاہوری ثقافت میں رچی بسی مجلس آرائی اور لطیفہ گوئی ان کی شخصیت کا پر کشش جزو تھی۔ لطائف کی حد تک وہ احتیاط کے رسمی تقاضوں کو بھی کم ہی خاطر میں لاتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ لطیفہ، لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ تراش خراش کر کے اسے مہذب بنا دیا جائے تو اس کی لطافت مر جاتی ہے۔

انہوں نے یکم جنوری 1998 کو صدارت کا منصب سنبھالا۔ پندرہ جنوری کو میں بطور پریس سیکرٹری ان کے سٹاف میں آیا کم و بیش ساڑھے تین برس ان کے ساتھ یوں گزارے کہ شاید ہی کوئی بات انہوں نے مجھ سے پوشیدہ رکھی ہو۔ یادوں کا ایک خزانہ ہے۔ صندوق کھولوں تو ایک کالم تو کیا شاید کتاب بھی ناکافی ہو۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہیں بتایا گیا کہ ہر صدر کی طرح، آپ کے دفتر اور رہائش گاہ کی آرائش و زیبائش کے لئے بھی ایک خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ آپ فرنیچر، پلنگ، قالین، پردے اور دیگر اشیا ء اپنے ذوق اور بیگم صاحبہ کے مشورے سے بدل سکتے ہیں۔ کہنے لگے سب کچھ بہت عمدہ ہے۔ میرے گھر سے تو بہت ہی بہتر اور شاندار، کچھ بھی نہیں بدلنا۔ یہ رقم سرکار کو واپس کر دو۔ ساڑھے تین برس میں انہیں کبھی، آرائش و زیبائش کی آرزو نہ ہوئی۔

منصب سنبھالا تو رمضان کا مہینہ تھا۔ عید الفطر کے بعد پہلے ہی دن دفتر کھلا تو مجھے بلایا۔ کہنے لگے ”ابھی ابھی مجھے ایم۔ ایس نے لنچ کا پوچھا ہے۔ کہنے لگے برسوں سے یہی روایت ہے۔ صدر صاحب اور سینئر افسران کے لئے لنچ بنتا ہے“ ۔ میں نے کہا جی ہاں! میرے پاس بھی پی ایس آیا تھا کہ لنچ میں آپ کے لئے کیا تیار کرانا ہے۔ بولے جب سب لوگ بغیر لنچ کے رہ سکتے ہیں یا گھر سے لا سکتے ہیں تو ہمارے لئے یہ اہتمام کیوں؟ اس دن سے خصوصی لنچ کا سلسلہ موقوف ہو گیا جو ساڑھے تین برس موقوف ہی رہا۔

صدر کلنٹن، بصد منت و سماجت، چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے تو کہا کہ میں مشرف سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ طے پایا کہ وہ ایوان صدر آئیں گے۔ بس چند گھنٹے قیام کریں گے۔ صدر سے ملیں گے۔ پاکستانی قوم سے خطاب فرمائیں گے اور رخصت ہو جائیں گے۔ ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر اکرم ساہی (بعد میں میجر جنرل) کہنے لگے کہ صدر کے دفتر کا فرنیچر تو چلو جو ہے سو ہے، قالین بہت پرانا ہے، بوسیدہ لگتا ہے۔ آپ صدر سے بات کر کے کم ازکم یہ قالین تو بدلوا دیں۔ ہم سب نے با جماعت یہ عرضی پیش کی اور اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ تارڑ صاحب بولے۔ ”رہنے دیں یہ۔ انہیں پتہ چلے کہ ہم واقعی غریب لوگ ہیں۔ مانگتے ہیں تو واقعی حاجت مند ہیں“ ۔

12 اکتوبر 1999 ء کے مارشل لا کے بعد صدر تارڑ نے اپنے منصب پر برقرار رہنے کا فیصلہ کیا تو بہت غوغا پڑا۔ ”تیر دشنام بھی سنگ الزام بھی“ ۔ آج تک کہیں نہ کہیں سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی درخواست کے باوجود صدر تارڑ یکسو نہ تھے۔ انہوں نے مجھ سے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کے نام ایک مفصل خط لکھوایا (جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ) جس میں کہا گیا کہ وہ اس غیر آئینی اقدام کا نوٹس لیں جس دن یہ خط جانا تھا، اسی دن میاں محمد شریف مرحوم کا پیغام آیا کہ آپ اپنے عہدے پر قائم رہیں۔ ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ بعد میں انہوں نے میرے ہاتھ راجہ ظفرالحق کو پیغام بھیجا کہ وہ عدالتی پیشی کے دوران میاں نواز شریف سے پوچھ کر بتائیں۔ وہاں سے بھی پیغام ملا کہ آپ اپنا منصب نہ چھوڑیں۔

اکتوبر 1999 سے جون 2001 تک داستان، نشیب فراز سے بھی بھری پڑی ہے۔ پیچ در پیچ کہانی کا یہ محیط بیکراں کہ ایک کالم کی آب جو میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ لکھ پایا تو رازوں کی طلسم ہوش ربا، ہماری تاریخ کا ایک باب بنے گی۔ میں یہ کہانی تو سنا چکا ہوں کہ جون 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے خود خواہش ظاہر کی کہ ہمیں کھانا کھلایا جائے۔ عشائیہ ہوا۔ جنرل مشرف، جنرل محمود، جنرل یوسف، طارق عزیز فارغ ہوئے تو الگ کمرے میں قہوے کا دور چلا۔ جنرل مشرف نے تمہید باندھی اور حرف مدعا زبان پر لائے کہ میں صدر بننا چاہتا ہوں۔ تارڑ صاحب بولے یہ کیسے ہو گا ایک جرنیل نے کہا آپ استعفیٰ دے دیں۔ صدر تارڑ نے محکم لہجے میں کہا۔ میں آئینی طور پر استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی کو ہی دے سکتا ہوں۔ آپ نے اسمبلی چھوڑی نہ سپیکر میں کس کو دوں استعفیٰ؟ جنرل یوسف بولے آپ چیف ایگزیکٹو کو دے دیں۔ تارڑ صاحب بولے آپ سب اور آپ کا چیف ایگزیکٹو بہت طاقتور ہیں لیکن میرے ماتحت ہیں۔ میں کس طرح اپنے ماتحت کو استعفیٰ دے دوں؟

اگلے دن جنرل محمود تشریف لائے۔ صدر تارڑ کو زمینی حقائق کے تناظر میں نشیب و فراز سے آگاہ کیا۔ صدارت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخص کے لئے مزید فراز کیا ہونا تھا۔ بس نشیب ہی نشیب تھا لیکن تارڑ صاحب نے فراز کے لئے اپنی راہ تراشی اور حتمی طور پر کہہ دیا کہ میں استعفیٰ نہیں دو گا۔ نتائج کے لئے تیار ہوں۔ آئین، اسمبلیوں اور سینیٹ کو تاراج کرنے اور ایک مقبول وزیراعظم کو اٹک قلعے میں ڈال دینے والے مرد خود معاملہ کے لئے صدر تارڑ نے کیا کر لینا تھا۔ اس نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صدارت پر قبضہ کر لیا۔ تارڑ صاحب اسی شام اپنا سامان ایک دو گاڑیوں کے عقبی صندوقوں میں رکھ کر گھر آ گئے۔

ایک شام میں ان کے ہمراہ صدارتی رہائش گاہ کے سر سبز لان میں بیٹھا تھا۔ اچانک میں نے پوچھا۔ ”سر! یہ کوئٹہ والے بریف کیس کا کیا معاملہ ہے۔“ انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے، ”عرفان! یہ تم ہی مجھ سے پوچھ سکتے تھے“ ۔ انہوں نے کہانی سنائی خلاصہ جس کا یہ تھا کہ میں کوئٹہ ضرور گیا تھا لیکن بریف کیس والی کہانی من گھڑت ہے اور کوئٹہ بینچ کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن خان تھے جن سے تو میرا سلام دعا کا بھی تعلق نہ تھا۔

صدر تارڑ سے میرا رشتہ، ایوان صدر کے بعد بھی بہت گہرا رہا۔ دو بار اسلام آباد آئے تو میرے گھر بھی تشریف لائے میں لاہور جاتا تو ان سے ضرور ملتا۔ ڈیڑھ دو سال سے وہ علیل تھے اور بستر ہی پہ رہتے تھے۔ یاداشت بڑی حد تک درست تھی۔ شدید علالت کے دنوں میں بھی دس بارہ دن بعد فون ضرور کرتے۔ سب کی خیر و عافیت دریافت کرتے۔ میری آخری دو ملاقاتوں کے دوران، انہوں نے آبدیدہ آنکھوں اور بوجھل آواز میں یہ شعر سنایا۔

وہ دن وہ محفلیں وہ شگفتہ مزاج لوگ
موج زمانہ لے گئی کیا جانے کس طرف

میں یہ سطور لکھتے ہوئے خود ایک کلینک میں ہوں، ڈرپ لگی ہے سخت رنجیدہ ہوں کہ اس مرد درویش کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو پاؤں گا۔
اللہ ان کو درجات بلند سے نوازے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments