یہ ترقی نہیں نظر کا دھوکا ہے


”میں مصروف ہوں“ دور جدید کے زیادہ بولے جانے والے جملوں میں سے ہے۔ دور جدید کی لغت کے مطابق خود کو مصروفیات کے عوض گروی رکھنے کا نام ترقی ہے۔ ترقی کی اس نقل کو پہنچنے کو ہم نے بہت کچھ اصل کھویا ہے۔ دنیا والے ہمیں خوش نصیب کہتے ہیں کہ ہم نے ترقی کے دور میں آنکھ کھولی۔ پر ہم نے آنکھ کھولنے کے بعد اس دنیا کو چھوڑ کے جانے والے بزرگوں کی محفل میں کان لگائے تو معلوم پڑا کے ترقی کی جو تعریف ہمیں ہمارا تعلیمی نظام پڑھا رہا ہے وہ غلط ہے، بے معنی ہے۔

بزرگوں کی اس محفل میں سب سے زیادہ بولے جانے والا لفظ ”کاش“ تھا۔ ہر بزرگ کاش کے بعد جس حسرت کا اظہار کرتا تھا وہ سب غیر مادی تھیں۔ کاش! میں سمجھ جاتا کہ ترقی صرف چند پیسوں کے عوض خود کو گروی رکھنے کا نام نہیں ہے۔ کاش! میں جان لیتا کہ رشتوں کی قربانی دے کر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ میری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ کاش کبھی رک کر یہ سوچا ہوتا کہ زندگی کے ہر لمحے کو کیرئیر کے سپرد کر نا ترقی نہیں ہے۔ کاش میں مادیت پسندوں کو دکھا پاتا کے پیسے کے بغیر کیسے خوش رہا جا سکتا ہے۔

اس راز کے آشکار ہونے کے بعد بھی ہم اس چنگل سے نہ نکل سکے۔ کیونکہ سب بھاگ رہے تھے، اسی راستے پر جس پر نہ بھاگنے کا سبق ہم بزرگوں کی محفل سے حاصل کر چکے تھے۔ پر ہم کیا کرتے، نہ بھاگتے تو پیچھے رہ جاتے۔ اور پھر کوئی مغرب زدہ فلسفی ہم پہ جملہ کستا ”یہی وجہ ہے کہ مسلمان ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں“

والدین کی موجودگی میں گھر میں سجی کھانے کی میز کو چھوڑ کر ہوٹل آباد کرنا، چند ماہ عمر کے بچے کو ڈے کیئر کے سپرد کر کے خود بری الذمہ ہو جانا، بزرگوں کے کمرے کو اولڈ ایج ہوم کی حیثیت دینا، گرین چھوڑ کر سکرین میں رہنا، سوشل میڈیا کے ہر نوٹیفکیشن پہ فوراً لبیک کہنا، کانوں میں مخصوص آلے لگا کر دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جانا، ہر نئی ٹیکنالوجی کے پیچھے دوڑ پڑنا، کسی بھی چیز کو فقط ذائقہ کی بنیاد پہ اعلیٰ جان کر اندر اتار دینا یہ سب ترقی نہیں نظر کا دھوکا ہے۔

کورونا وائرس نے ترقی کی اس تعریف کو مزید تقویت بخشی ہے۔ ذہن کے ہر خلیے سے کیرئیر بارے سوچتے اور زندگی کی ہر گھڑی کو ملازمت کے نام کرتے انسان کو جو فرصت کے لمحات میسر تھے وہ بھی چھن گئے۔ سرمایہ دار بڑی کامیابی سے ملازمین کے گھروں کو ”ورک فرام ہوم“ کے نام پر آفس کے درجے پہ لے آیا۔ یوں ہمیشہ کی طرح سرمایہ دار پہ بوجھ پڑے بغیر اس کی جیب بھاری ہوتی جا رہی ہے۔

اگر اس تھکا دینے والی دوڑ میں آپ دوڑے چلے جا رہے ہیں تو لمحے بھر کو رکیں، سانس لیں، سوچیں۔ فرصت کے میسر لمحات میں ٹیکنالوجی سے دور کہیں، سرمایہ داروں کو ناں کہتے ہوئے، بیٹھیں، سانس لیں سوچیں، سوال کریں۔ کیا میں واقعی میں ترقی کر گیا ہوں؟

کیا میرے قریبی رشتے میرے مصروف ہونے کے نعرے سن سن کر اکتا نہیں گئے؟ میرے گھر میں لگے کھانے کے میز پہ کھانا کھائے مجھے کتنے دن بیت گئے ہیں؟ میں جس جنت کا خواہش مند ہوں، وہ جس کے پاؤں تلے ہے اس کے پاس بیٹھے ہوئے کتنا وقت بیت چکا ہے؟ چند ہزار روپے زائد لینے کو جو میں نے اپنا آرام داؤ پہ لگایا ہے، اس سے میری صحت پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

ہمیں ترقی کے دور میں پیدا ہونے پر خوش نصیب قرار دینے والو! یہ خوش نصیبی تمہیں مبارک ہو۔ ہمیں واپس لے چلو اس ترقی کے دور سے جو حقیقت میں نظر کا دھوکا ہے۔ ہمیں واپس لے چلو اس درد میں جب لوگ آپس میں مل بیٹھا کرتے تھے۔ جب لوگ مصروفیات کے عوض خود کو اور قریبی رشتوں کو قربان نہیں کرتے تھے۔ جب انسان یہ سمجھتا تھا کہ وہ اخلاقی اور روحانی وجود بھی رکھتا ہے۔

ہمیں واپس لے چلو، اس سے قبل کے دیر ہو جائے اور ہم بزرگوں کی وہ محفل سجائے بیٹھے ہوئے جس میں بار بار کاش کا لفظ بلند ہوتا رہتا ہے۔

یہ لوگ نئی زندگی کی خواہش میں نکل رہے ہیں دھواں بن کے کارخانوں سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments