عالمی امن کے قیام میں رکاوٹ: ویٹو پاور


انسانی تہذیب کی ابتداء سے لے کر آج کے دن تک جنگ و جدل ہر معاشرے کا حصہ رہا ہے۔ معلوم تاریخ میں شاید کوئی ایسی قوم ہو جس کی تاریخ جنگ اور قتل و غارت گری سے مبرا یا خالی ہے، ایسا ممکن ہی نہیں۔ مایہ ناز ماہر سماجیات و معاشرت دان علامہ عبد الرحمان ابن خلدون، جو کہ عمرانی علوم اور تاریخی علوم میں مہارت تامہ رکھتے تھے انہوں نے بھی اپنی کتاب المقدمہ لابن خلدون میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ انسانیت نے اپنی معاشرتی زندگی کے شروع ہی سے جنگ اور تباہی و بربادی کا نظارہ کیا ہے، جو کہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور یہ انسانی جبلت سے بدلہ لینے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

قدیم انسان سے جدید انسان تک کی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سب کی ضروریات اور بنیادی حاجتیں آپس میں مطابقت رکھتی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ جزئی فرق (partial difference ) ہے نہ کہ کلی فرق (holistic difference ) ۔ لیکن انسانی آبادی میں اضافہ کے سبب سے انسانی ضروریات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، یہی کیفیت ہر قوم، معاشرہ اور ملک کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر انسان اپنی بنیادی ضروریات کے لیے آپس کے انسانوں سے تعلق قائم رکھتا ہے تو ملک و قوم کی قیام و بقا اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپس کے قریبی ممالک یا کہ جغرافیائی اہمیت کے حامل ممالک سے رابطہ بھی استوار رکھنے کی پوری کوشش بھی کرتا ہے۔

اگر آپس کی سماجی، معاشرتی اور معاشی ضروریات امن کے ذریعے سے حاصل ہوں تو ملکوں کے تعلقات دیر تک قائم و دائم رہتی ہیں، لیکن اگر یہ ضرورتیں امن و آشتی کے ذریعے پوری نہ ہوتی ہوں تو جنگ و جدل سے بھی اسے لازما پورا کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ سے جدید زمانہ تک جنگ کی نوعیت بدلتی رہی ہے لیکن قومی و ملکی ضرورتوں کے لیے compromise کا اصول کہیں کہیں دیکھنے میں آتا ہے۔ آج کل کے دور میں قوموں کی زندگی میں شدت سے دو بنیادی عناصر کا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

ایک ٹکنالوجی و سائنسی ضرورت اور دوسرا اپنے علاقہ کی جغرافیائی یا سرحدی (territorial safety and security) حفاظت کی ضرورت۔ زمانہ قدیم میں زیادہ تر اپنے فوجی و جندی وسائل کے بل بوتے پر دوسرے ممالک پر چڑھ دوڑتے تھے اور ہر طرح سے دوسرے ملک کو لوٹا جاتا حتی کہ اس ملک کے عوام کو غلام بھی بنایا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب کے زمانہ میں افریقہ کے باشندوں کو امریکہ و یورپ نے اپنی صنعتوں اور

فیکٹریوں کو چلانے کے لیے زبردستی قید و بند کے ذریعے استعمال کیے۔ اور جب یہ ضرورت صحیح تعداد میں پوری نہ ہوئی تو مزید جنگ و قتال سے اسے پورا کیا گیا۔

لیکن جب سے اقوام متحدہ ( 1945 ) کا قیام ممکن ہوا ہے۔ ایسے انسانیت سوز سلوک اور مسالک پر تقریباً مختلف معاہدات کے ذریعے پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ بلکہ تمام ممالک کے آئین میں بھی بنیادی حقوق ( fundamental rights) کے آرٹیکلز شامل کیے گئے ہیں، جن میں ایسے طریقوں کو خلاف انسانیت اور انسانی شرف و عظمت (human dignity) کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح سے اقوام عالم نے مل کر امن عالم کے قیام کے لیے کچھ ایسے اہم اقدامات کیے جس سے طاقت ور ممالک کو ہر آن میں دوسرے چھوٹے اور کمزور ممالک پر حملہ کرنے کی روش پر قانونی پابندی اور عالمی قدغن لگی، اقوام عالم کے چارٹر (Charter of United Nations) کے آرٹیکل 2 ( 4 ) میں طاقت کے استعمال پر پابندی کا ذکر کیا گیا ہے (Prohibition on the use of force) ۔

لیکن اسی چار ٹر کے آرٹیکل 27 ( 3 ) میں سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبرز کو veto کا اختیار دیا گیا ہے کہ ان جب بھی ان میں سے کوئی حق ویٹو استعمال کرے گا تو کسی طرح کا بھی فیصلہ نافذ العمل نہیں ہو گا اور باقی دس غیر مستقل ممبرز کے ووٹ کی کوئی قانونی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہ کیسا عجیب نظریہ ہے کہ دنیا میں جمہوریت کے نام پر ( majority powers) اکثریتی قوت کے قائلیں جب سیکورٹی کونسل پہنچتے ہیں تو یہاں اکثریتی ووٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ایک مطلق العنان کے فیصلہ کے آگے ساری اکثریتی ووٹ باطل قرار پاتی ہے۔

سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبرز، چین، روس، امریکہ، یونائیٹڈ کنگڈم ( برطانیہ) ، فرانس میں سے اگر کوئی بھی اپنا (right to veto) حق ویٹو استعمال کرتا ہے تو باقی چودہ ممبرز کے ووٹ پر بھی کوئی فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوتا۔ آج کے اس زمانہ میں سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبرز ویٹو کے ذریعے سے اپنے ملکی مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور ایسے ممالک جن کے پاس جدید اسلحے، بالخصوص جو ممالک نیوکلیر طاقت کے حامل نہ ہوں، ان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور وہاں سر پھٹول اور فسادات پھیلا کر دم لیتے ہیں۔

جب 24 فروری کو روس نے یوکرائن پر دھاوا بولا اور زمینی، فضائی اور سمندری راستہ سے بھر پور حملہ کیا تو دنیا کے اقوام میں ایک ہل چل مچ گئی۔ سیکورٹی کونسل نے اس پر ہنگامی اجلاس طلب کیا، لیکن یہ بے نتیجہ اختتام پذیر ہوا۔ روس نے ویٹو کیا، چائنہ، یونائیٹڈ عرب امارت اور انڈیا نے ووٹ دینے سے باز (abstained) رہے، اور گیارہ ممالک نے اس حق میں ووٹ دیے کہ روس یوکرائن میں جنگ سے واپس لوٹے اور اپنے تمام لشکروں کو واپس بلائے (withdrawal of all troops) ۔ لیکن روس کے ویٹو (negative vote) نے اس اجتماعی و اکثریتی فیصلے پر عمل ہونے نہ دیا، یوں نظریہ جمہوریت کا ایک لحاظ سے بخیے اڑ گیا۔ ہمیں فی الحال اس سے بحث نہیں کہ روس کا یوکرائن پر حملہ بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے جائز ہے یا ناجائز یا کہ روس کا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حفظ

ما تقدم کے تحت (preemptive strike ) کا جواز پیش کر کے قبل از حملہ، یوکرائن سے جنگ درست ہے یا نہیں۔ لیکن یہ بات طے ہیں کہ امن عالم کے قیام میں ویٹو پاؤ ر سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ جب بھی ویٹو کا استعمال ہوتا ہے۔ ان عالمی سورماؤں کے مفادات ہمیشہ مقدم رکھے جاتے ہیں چاہے ان مفادات کے لیے نسل انسانی کو خون سے رنگین ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

زمانہ قدیم کی انسانی ضرورتوں کے مقابلے میں آج کی انسانی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، اس لیے لا محالہ ملک و قوم کی اجتماعی ضرورت زندگی، جس میں معاشی، سائنسی اور جغرافیائی اہمیت شامل ہے، یہ سب بھی بڑھ گئی ہیں۔ پہلے زمانوں میں باقاعدہ جنگ و قتال کے ذریعے سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاتا تھا تو آج بھی جنگ و قتال کے ذریعے سے ہی ان قومی و عالمی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج کے عالمی زمانہ میں اسے قانونی لبادہ پہنانے کے لیے ویٹو جیسے حق کا استعمال بھی جائز تصور کیا جاتا ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کیا عالمی قوانین کو تیار کرنے اور انہیں قانونی شکل دینے میں مشرقی تہذیب اور مذاہب کا کتنا ہاتھ ہے یا یہ صرف مغربی قوتوں کی کارفرمائی ہے، جس میں بالخصوص اسلامی تہذیب و ثقافت کا دور دور تک واسطہ نہیں۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد بھی امن عالم کو درپیش مسائل خود ان قوانین اور ان کے تشکیل کر دگان پر سوالیہ نشان ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیوکلیر طاقت کا حامل ملک کمزور ممالک کے در پے ہو اور ان چھوٹے اور معاشی کمزوری کے حامل ممالک پر اپنی تہذیب و ثقافت اور نظریات و قوانین کو نافذ کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے ویٹو پاور کو بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے لیکن عالمی امن کے قیام کا ڈھونگ رچا کر!

اس لیے یہ سوال اہم بنتا ہے کہ کیا ویٹو پاور کے استعمال کی گنجائش کے ہوتے ہوئے عالمی امن کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟ کیا دنیا کے نقشہ پر موجود تمام ممالک کے قسمت کے فیصلے صرف پانچ طاقتور ممالک ہی کریں گے؟ کیا ویٹو پاور بین الاقوامی قوانین کے روح و مزاج کے خلاف نہیں؟ چارٹر آف یونائیٹڈ نیشن کے آرٹیکل 24 ( 3 ) میں یہ بات مانی گئی ہے جب سیکورٹی کونسل امن کے قیام میں لاچار و ناکام ہو جائے تو وہ اپنی سالانہ یا سپیشل (special report) جنرل اسمبلی کو (consideration) غور و فکر کے لیے ارسال کرے گی۔ تاکہ جنرل اسمبلی جو قوموں کی نمائندہ عالمی تنظیم کا ایک اہم (organ) رکن ہے، امن عالم کے قیام میں حائل رکاوٹ و سدا کو دور کر سکے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ طاقت ور ریاست کے خلاف اس تنظیم کے ذریعے اقدام اٹھانا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

اس تناظر میں کیا مسلمان ریاستیں جن کی اکثریت مشرقی دنیا میں واقع ہے کیا وہ بھی اپنی ایک ایسی عالمی تنظیم (Muslim block) کے قیام کو ممکن بنا سکتے ہیں، جو امن عالم کے حوالے سے فیصلہ سازی میں با اختیار ہو تاکہ کمزور و بے سہارا ممالک کو سہارا دے سکیں۔ کیونکہ قطعی طور پر یہ تو واضح ہے کہ اقوام متحدہ میں کوئی بھی مسلم ملک فیصلہ سازی کے حوالے سے اختیارات کا حامل نہیں۔ سوچئے، عمل میں لائیے اور امن عالم کے قیام کے خواب کو حقیقت کا روپ دھاریے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments