تحریک عدم اعتماد آ گئی، اب اسمبلی میں کیا ہو گا؟


پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن ( درخواست ) بھی جمع کروائی ہے۔

پارلیمانی قواعد کے مطابق سپیکر 14 روز کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ اس لحاظ سے اسپیکر اسد قیصر 22 مارچ سے قبل ہر صورت اسمبلی اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ رولز آف بزنس کے تحت اسپیکر کو اسمبلی اجلاس شروع ہونے کے بعد 3 سے 7 دن کے اندر یعنی ایک ہفتے کے اندر تحریک عدم اعتماد پر بحث کے بعد ووٹنگ کروانا ہو گی۔

اس لحاظ سے اگر حکومت تحریک عدم پر ٹال مٹول سے بھی کام لیتی ہے تو اسپیکر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو 29 مارچ سے آگے ہر گز نہیں لے جا سکتے۔ یوں آئینی ماہرین کے مطابق اپریل سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اسپیکر چاہیں تو رواں ہفتے میں بھی اس عمل کو نمٹا سکتے ہیں۔ یہ اسپیکر کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ کتنا وقت لیتے ہیں۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 342 ہے، جب کہ ہنگو سے ایک رکن کی وفات کے باعث اس وقت قومی اسمبلی میں 341 اراکین حاضر ہیں۔ یہ وہ اراکین ہیں جو عام انتخابات میں براہ راست منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن کو 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔ جبکہ قومی اسمبلی میں اس وقت اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین کی کل تعداد 162 ہے۔ جس میں مسلم لیگ نون 84، پیپلز پارٹی 56، متحدہ مجلس عمل 15، بلوچستان نیشنلسٹ پارٹی 4، آزاد 2، اور عوامی نیشنل پارٹی کا 1 رکن شامل ہے۔

دوسری جانب حکومتی بنچوں پر اس وقت 179 اراکین بیٹھے ہیں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو منتخب کیا ہے۔ اس میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین جبکہ اتحادی جماعتوں کے 24 اراکین شامل ہیں۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 اراکین، مسلم لیگ ق 5، بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ 5، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یعنی جی ڈی اے 3، آزاد 2، عوامی مسلم لیگ 1 اور جمہوری وطن پارٹی کی 1 نشست شامل ہے۔

اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لئے 10 مزید اراکین کی ضرورت ہے۔ یعنی 162 کے نمبر کو 172 میں بدلنا ہو گا۔

اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں تحریک انصاف کے اندر سے 22 اراکین کی حمایت حاصل ہے جو تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ جبکہ آخری اطلاعات آنے تک اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سمیت جی ڈی اے اور باپ پارٹی سے بھی رابطوں میں ہیں۔ لیکن اتحادی جماعتوں نے واضح طور پر ابھی تک اپنی سمت کا تعین نہیں کیا۔ اگر حکومت کی اتحادی جماعتوں میں سے کوئی بھی دو ایسی جماعتیں جن کی ٹوٹل نشستیں 10 سے زائد ہوں، اپوزیشن کے ساتھ مل گئیں تو وزیراعظم کا جانا حتمی ہو گا۔

دوسری جانب اگر پی ٹی آئی کے اراکین نے تحریک عدم اعتماد میں اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا تو بھی وزیراعظم کو کرسی چھوڑنا ہو گی۔ لیکن آئینی ماہرین کے مطابق اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ پی ٹی آئی اراکین اپنی جماعت کے خلاف ووٹ کریں۔ کیونکہ پارلیمانی اصلاحات میں فلور کراسنگ یا کراس ووٹنگ کو روکنے کے لئے کچھ ترامیم کی گئی تھیں۔ ان ترامیم کے بعد کوئی بھی رکن جو کسی ایک جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوا وہ اپنی پارٹی کے خلاف نہیں جا سکتا۔ تاہم اراکین پر پابندی نہیں ہے۔ وہ پارٹی کے خلاف ووٹ کر سکتے ہیں لیکن چونکہ تحریک عدم اعتماد خفیہ ووٹنگ کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو گا اور اس صورت میں ووٹ ڈالنے کے بعد منحرف اراکین کی شناخت ہو جائے گی۔ یوں قانون کے مطابق ایسے اراکین جنہوں نے فلور کراسنگ یا پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا، اسپیکر ان کے کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیج کر منحرف اراکین کی رکنیت منسوخ کر سکتا ہے۔ یوں ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی اراکین رکنیت ختم ہونے کے خوف سے فلور کراسنگ نہیں کریں گے۔

البتہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ناراض اراکین یہ رسک لے سکتے ہیں۔ وہ اس شرط پر تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں اگر انہیں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ کی ضمانت دیں۔ اس بندوبست کے ساتھ یہ اراکین اپنی رکنیت ختم کروانے کا رسک بھی لے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments