یکساں نصاب تعلیم اور ہارس ٹروجن تھیوری


ہارس ٹروجن تھیوری صرف یونانیوں تک محدود نہیں۔ یہ نسل در نسل ہماری اس دنیا میں چل رہی ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک حملہ آور بادشاہ جب کئی سال تک ایک قلعے کو فتح نہیں کر سکا تو اس نے ایک جنگی چال چلی۔ چال کے مطابق اس نے ایک بڑا خوبصورت گھوڑا بنوایا اور اپنی فوجوں کو لے کر دور چلا گیا۔ محصور قلعے کے فوجیوں نے جب باہر کسی کو نہ دیکھا تو انہوں نے باہر نکل کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ باہر کا منظر خالی دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، وہ اس دیو ہیکل گھوڑے کو اپنی فتح کی علامت سمجھ کر اٹھا کر اندر لے گئے۔

اندر شب بھر فتح کا جشن منایا گیا، فوجی ناچ گانے اور عیش و نوش کے بعد بے سدھ ہو کر سو گئے۔ جب سناٹا چھا گیا تو منصوبے کے مطابق گھوڑے میں چھپے ہوئے فوجی باہر نکلے، انہوں نے قلعے کے دروازے کھولے، اس کے بعد باہر چھپی ہوئی فوجیں قلعے میں داخل ہوئیں اور سوئے ہوئے لوگوں پر شب خون مارنے کے بعد فاتح بن گئیں۔

تاریخ میں ایسا کئی بار ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ مثلاً جہاد افغانستان کو لیجیے۔ بڑا خوبصورت لیبل تھا، لیکن اندر سے ہمیں کلاشنکوف کلچر، منشیات، خون خرابے اور تعصبات کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ابھی یکساں قومی نصاب کی بات کر لیجیے۔ نصاب کمیٹی نے اس پر مسلسل کام کیا ہے۔ یکساں قومی نصاب کی سوچ واقعتاً قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ اس کی بھرپور تائید کی جانی چاہیے۔ تاہم ایک قوم ایک نصاب کے اس خوبصورت لیبل کے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جب کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے اس نصاب کی پورے زور و شور کے ساتھ تائید و حمایت کا سلسلہ جاری ہے تو جھانکنے میں حرج ہی کیا ہے

ہم یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اصحاب رسولﷺ کے بارے میں تین طرح کی آراء ہیں۔ ایک رائے کچھ تنظیموں، کچھ اہل حدیث اور کچھ دیوبندی حضرات کی ہے۔ اس رائے کے مطابق صحابہ کرام پر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم کی طرح ایمان لانا واجب ہے اور جو ایمان نہ لائے، وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ یہ ایک رائے ہے۔ اس کے مقابلے میں دو دیگر رائے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک اغلب رائے اکثر اہل سنت (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل حدیث) کی رائے ہے اور تیسری شیعہ حضرات کی۔

اکثر اہل سنت کی رائے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے سے انسان مسلمان ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں مسلمان ہونے کے لئے صحابہ کرام پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ وہ اس بات کو فراخدلی سے تسلیم کرتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد بعض صحابہ کرام سے غلطیاں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ وہ تاریخی تجزیہ و تحلیل کے وقت، ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان غلطیوں کو غلط کہنے کو درست مانتے ہیں۔ ان کے مطابق غلط کو غلط کہنا درست ہے، لیکن ادب کے ساتھ۔

اسی طرح ان کا یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام نے جتنی بھی بڑی خطا کی ہو، وہ قیامت کے دن سزا کے بعد بالآخر بخشے جائیں گے۔ وہ صحابہ کرام کی غلطیوں کو خطائے اجتہادی کا نام دے کر انہیں جائز الخطا قرار دیتے ہیں۔ اس دوسرے گروہ میں مولانا مودودی، ڈاکٹر طاہر القادری، مولانا اسحاق مرحوم، انجینئر مرزا محمد علی وغیرہ وغیرہ جیسی شخصیات کے نام سرفہرست آتے ہیں۔

اس کے بعد اہل تشیع کا نظریہ ہے۔ شیعہ حضرات کے مطابق جو شخص حیات پیغمبرﷺ میں ایمان لایا اور تاحیات اس ایمان پر قائم رہا، صرف وہی صحابی کہلانے کا حق دار ہے۔ ان کے مطابق جس نے ایمان لانے کے بعد رسولﷺ کی اطاعت نہیں کی، تو وہ صحابی بھی نہیں رہا۔ یعنی اہل تشیع کے ہاں حکم رسولﷺ کے مقابلے میں خطائے اجتہادی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کا چودہ سو سالہ اٹل عقیدہ ہے کہ جس نے فرمان رسول سے سرتابی کی یا انحراف کیا، وہ صحابی بھی نہیں رہا۔

یاد رہے کہ شیعوں کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلائی گئی ہے کہ شیعہ اصحاب کو نہیں مانتے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ شیعہ اصحاب کی غلطی کو نہیں مانتے۔ ورنہ حیات پیغمبرﷺ میں کسی شخصیت نے ایمان لانے کے بعد اگر اپنے کسی عمل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت نہیں کی تو اہل سنت کی طرح ہی بلکہ اہل سنت سے بڑھ کر ایسے صحابہ کرام کا شیعہ عقائد میں خاص مقام اور منفرد احترام ہے۔

راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق اپنے اعمال کے اعتبار سے ساری امت برابر ہے۔ اس میں اہل بیتؑ، صحابہ کرامؓ، مجتہدین اور تابعین و تبع تابعین و مفسرین و محدثین و۔ کا کوئی فرق نہیں۔ شیعہ حضرات کے نزدیک کسی کے احترام کا معیار اور کسوٹی فقط اتباع قرآن و اطاعت رسول ﷺ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق جو حکم رسولﷺ سے بغاوت کرے گا، وہ دین کا مجرم ہے اور وہ اہل بیت ؑ یا صحابہ کرامؓ میں شمار نہیں ہو سکتا ۔

صحابہ کرام ؓ کے بارے میں یہ اختلاف یکساں نصاب میں بھی موجود ہے۔ اغلب اہل سنت بھی صف باطل میں کھڑے صحابی کی بے ادبی تو نہیں کرتے، لیکن ہیرو بھی نہیں مانتے۔ اس کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً معرکہ صفین میں اغلب اہل سنت کے ہیرو حضرت امام علی ؑ ہیں۔ وہ امام علی ؑ کے مقابلے میں آنے والے کسی بھی شخص کو اپنا ہیرو نہیں کہتے اور ان کی غلطی کو قبول کرتے ہیں۔

ہماری معلومات کے مطابق اغلب مسلمانوں کے عقائد کو نئے یکساں نصاب تعلیم میں حذف کیا گیا ہے یکساں نصاب تعلیم میں صحابہ کرام کے ذکر پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ معترضین کا اعتراض ان لوگوں پر ہے، جو اکثریت میں مسلمانوں کے ہیرو نہیں ہیں۔ بہرحال ایک قوم ایک نصاب کے خوبصورت گھوڑے کے اندر اختلاف کا سارا سامان موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments