الوداعی خطوط لکھ رکھے ہیں


مارچ 2003 کی بیس تاریخ، جمعرات کا دن اور عصر کا وقت ہے کہ ٹیکسی سٹینڈ پر میری پہلی باری آ جاتی ہے۔ ایک لگ بھگ اسی سال کی خاتون آ کر ٹیکسی میں بیٹھ جاتی ہے۔ علیک سلیک کے بعد گاڑی چلاتے ہوئے سامنے مین روڈ پر پہنچنے پر میں اس خاتون سے اس کی منزل دریافت کرتا ہوں تو جواب ملا۔

”میں نے ہائی وے پل تک جانا ہے“
ہائی وے کے دو پل شہر کے وسط سے دائیں اور بائیں جانب ہیں اس پر دریافت کیا کہ:
”کون سے پل تک جانا ہے؟“
”جو بھی قریب ہے“

”دونوں کا فاصلہ کم و بیش برابر ہے۔ ایک کے لئے آگے جا کر دائیں طرف مڑنا ہو گا اور دوسرے کے لئے بائیں طرف“

”مجھے کسی پل پر لے جائیں“
”وہاں کوئی منتظر ہے آپ کا یا قریب رہتی ہیں۔ یا؟“
”مجھے پل تک لے جائیں بس۔ آپ کو پتہ نہیں کہ جنگ لگ چکی ہے اور تمام لوگ فوت ہو جائیں گے“
”لیکن آپ کے پل پر جانے کے نتیجہ میں جنگ تو بند نہیں ہو سکتی“
”میں اس موتا ماتی سے تو بچ جاؤں گی“
”وہ کیسے؟“
”چھلانگ لگا کر“
”یہ تو کوئی حل نہیں ہے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے“
”آپ نے مجھے لے کر جانا ہے تو ٹھیک ورنہ میں دوسری ٹیکسی لے لیتی ہوں“
روزی روٹی کو چھوڑ کر اب اس کی زندگی کو بچانا ایک فرض اور چیلنج بن جاتا ہے۔
”آپ کے رشتہ داروں کو آپ کے ارادہ کا علم ہے؟“
”میں نے الوداعی خطوط لکھ رکھے ہیں“ اور اس نے مجھے وہ دکھا دیے

”تو یہ چھلانگ لگانے کے بعد ضائع بھی ہو سکتے ہیں بہتر ہے کہ انہیں ابھی ڈاک خانے میں ڈال لیں یہ پاس ہی تو ہے“

خاتون اس پر رضامند ہو گئیں اور میں واپس آ کر ٹیکسی سٹینڈ پر ٹیکسی کھڑی کر کے خطوط لے کر تیس میٹر کے فاصلہ پر ڈاکخانے کے بکس میں ڈالنے کے لئے باہر نکل کر چل پڑا۔ اس دوران وہ ٹیکسی میں انتظار کرنے لگی۔ ذرا فاصلہ پر جا کر ہنگامی ضرورت کے نمبر پر فون کر کے صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد میں ادھر ادھر چلنے لگا۔ جلد ہی پولیس اور ایمبولینس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ میں نے قریب جا کر اپنا تعارف اور معاملہ سے ان کو آگاہ کیا۔ اس پر انہوں نے خاتون کو بڑی محبت سے محفوظ کر لیا اور ایمبولینس میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔

خاتون نے جنگ عظیم دوم کے دکھ برداشت کیے ہوئے تھے اور اس نسل کے اکثر لوگوں نے اگلی جنگ کی صورت میں ان مصائب کا سامنا نہ کر سکنے کے خوف سے یہ پلان بنا رکھا تھا کہ وہ جنگ کے آغاز میں ہی خود کشی کر لیں گے۔

مجھے جہاں اپنی استطاعت کے مطابق ایک جان بچا لینے میں کامیابی پر آسودگی ہے وہیں لاکھوں معصوم  جانوں کے اسی جنگ (خلیج) کے دوران قتل ہو جانے کا شدید دکھ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments