اپنی خوراک بہتر کرنے سے عمر میں تیرہ برس کا اضافہ ہو سکتا ہے!


آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ دن پہلے ہم نے ایک مضمون ”کھانے پینے میں احتیاط کیوں ضروری ہے“ میں تجویز دی تھی کہ لوگوں کو بیمار ہونے سے پہلے ہی کھانوں میں نمک، چینی کم اور دیگر مرغن غذاؤں سے پرہیز کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ بیماری کے وقت پرہیز میں زیادہ مشکل نہ ہو۔ اب سائنس دانوں نے کچھ ایسی ہی بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ جوان العمری میں اپنی خوراک میں تبدیلی لانے سے آپ کی عمر کم از کم تیرہ سال تک بڑھ سکتی ہے۔

اس تحقیق میں سائنس دانوں نے معمول کی ”مغربی خوراک“ جس میں زیادہ سرخ گوشت اور تیار شدہ کھانے ہوتے ہیں کی بجائے زیادہ سے زیادہ سبزیوں، پھلوں، دالوں اور گری دار میووں اور کم سرخ گوشت اور تیار شدہ کھانے کھلا کر کی۔

تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اگر ایک عورت بیس سال کی عمر سے ایسی خوراک کا استعمال شروع کر دے تو اس کی عمر میں دس سال سے زائد کا اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ مرد کی عمر میں تیرہ سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق جرنل پلوس میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔

ایسی صحت بخش غذا سے بڑی عمر کے افراد کی عمروں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ اگر ایک صحت مند عورت ایسی غذا ساٹھ سال کی عمر میں بھی شروع کرے تو اس کی عمر میں اوسطا آٹھ سال کا اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ مرد کی اوسط عمر میں تقریباً نو سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں، تحقیق کاروں کے مطابق اسی ( 80 ) سال کی عمر میں بھی سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل خوراک استعمال کرنے والے افراد کی عمروں میں ساڑھے تین سال کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

”یہ بات تو بہت پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے کہ سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل غذا کے زیادہ اور سرخ گوشت اور کارخانوں میں تیار کردہ پکی پکائی اشیاء کا استعمال کم کرنے سے مہلک اور جان لیوا بیماریوں اور وقت سے پہلے موت کا خطرہ بہت حد تک ٹالا جا سکتا ہے۔ جس سے یہ منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسے افراد کی اوسط عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔“ یہ کہنا ہے ڈاکٹر ڈیوڈ کاٹز کا، جو کہ غذا کے ذریعے مہلک بیماریوں سے روک تھام کے ایک ماہر ہیں لیکن وہ اس تحقیق میں شریک نہیں تھے۔

ڈاکٹر کاٹز ایک غیر منافع بخش تنظیم ”ٹرو ہیلتھ انیشی ایٹیو“ کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم ایسی تحقیقات کو فروغ دیتی ہے جو غذا کے ذریعے مہلک اور جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے تحقیقات کو فروغ دیتی ہے۔

”اس تحقیق میں بھی جس طرز کی غذاؤں کو بہترین قرار دیا گیا ہے، میرے خیال میں تو اس میں مزید بہتری لانے کی گنجائش موجود ہے۔ جس سے عمر بڑھنے کے امکانات مزید بہتر کیے جا سکتے ہیں۔“

یہ تحقیق ناروے سے تعلق رکھنے والے محققین نے ”“ گلوبل برڈن آف ڈیزیز سڈیزز ”سے اعداد و شمار لے کر کی ہے جو کہ دنیا بھر کے دو سو چار ممالک میں دو سو چھیاسی موت کی وجوہات، تین سو انہتر بیماریوں اور ستاسی مختلف اقسام کی وقت سے پہلے ہونے والی اموات، اور دیگر اموات کے اعداد و شمار اکٹھے کرتا ہے۔

محققین کے مطابق عمر میں سب سے زیادہ اضافہ مختلف اقسام کی دالیں، مٹر اور بیج وغیرہ کھانے سے ہوتا ہے۔

بظاہر تو یہ کہنا بہت آسان لگتا ہے کہ اپنی خوراک میں دالیں اور سبزیوں کا اضافہ کر لیں لیکن یہ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں خاص طور پر امریکیوں کو اپنی خوراک میں پھل اور سبزیاں وغیرہ شامل کرنے میں بہت دشواری آتی ہے۔ امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اور پریوینشن کی تحقیق کے مطابق بہت کم امریکی ادارے کی جانب سے تجویز کردہ مقدار کے مطابق اپنی خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کرتے ہیں۔

سی ڈی سی کی تحقیق کے مطابق صرف بارہ فیصد بالغ امریکی اپنی خوراک میں ادارے کی تجویز کردہ مقدار کے مطابق آدھی سے دو پیالی پھلوں کا روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ صرف دس فیصد امریکی ادارے کے تجویز کردہ دو سے تین پیالی سبزیوں اور دالوں کا استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق خوراک کا پچاس فیصد ثابت دانوں پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن پچانوے فیصد امریکی اس اصول پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ اس کی بجائے وہ پسے ہوئے دانوں کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے بھوسی اور نظام ہاضمہ کے لیے بہتر اجزا پسائی کے دوران نکال لیے جاتے ہیں۔

پچاس فیصد سے زائد امریکی پانچ گرام یا ایک چمچہ گری دار میوے بھی نہیں کھاتے ہیں۔

زیادہ تر امریکی سمجھتے ہیں کہ دالوں اور گری دار میووں سے حاصل کردہ پروٹین وہ گوشت وغیرہ کے ذریعے حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان سے صرف پروٹین ہی حاصل نہیں ہوتا۔ ان میں صحت کے لیے فائدہ مند چربی، وٹامن، نمکیات اور اینٹی آکسیڈینٹس بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ مختلف مہلک اور لمبے عرصے تک شکار کرنے والی بیماریوں مثلاً دل کی شریانوں کے بند ہونے، گردوں کے آہستہ آہستہ ناکارہ ہونے جیسی بیماریوں سے بچاؤ کرتے ہیں۔

کارخانوں میں تیار کردہ غذاؤں جیسے کہ بیکن، اور ساسیجز وغیرہ سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنے سے بھی عمر بڑھ جانا ثابت ہو چکا ہے۔ ایسی غذاؤں سے دل اور آنتوں کی مختلف بیماریاں زیادہ لاحق ہونے کے امکانات پہلے ہی مختلف تحقیقات سے ثابت ہو چکے ہیں۔ ”یہ اتنی زیادہ خطرناک ثابت ہو چکی ہیں کہ عالمی ادارہ صحت سنہ دو ہزار پندرہ سے بیکن اور ساسیجز کو کارسینو جینک یعنی سرطان کا موجب بننے والی غذائیں قرار دے چکا ہے۔“ یہ کہنا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر وبائیات ٹم کے کا۔

اس طرح کے کارخانوں سے تیار کردہ کھانوں کو تازہ مرغی اور مچھلی سے بدل کر ہی بہتر اور اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

پاکستان میں بیکن یعنی سؤر کے گوشت کے استعمال کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے ساسیجز یعنی جانوروں کی انتڑیوں سے تیار کردہ بنی بنائی خوراک کا رواج فروغ پا رہا ہے۔

سنہ 2020 میں کی گئی ایک تحقیق جس میں درمیانہ عمر کے سینتیس ہزار سے زیادہ امریکی شہریوں کے اعداد و شمار لیے گئے سے پتا چلا کہ دالوں اور سبزیوں سے پروٹین حاصل کرنے والے ستائیس فیصد افراد کے کسی خاص بیماری سے نہ مرنے اور انتیس فیصد کے دل کی بیماری سے نہ مرنے کے امکانات تھے۔

اسی لیے امریکا میں بحیرہ احمر یا میڈیٹیرین کے خطے کے رہنے والوں کے طرز خوراک کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں زیادہ پھل، سبزیاں، دالیں اور زیتون کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments