دریائے سندھ کی ڈولفن کی سیٹیلائٹ ٹیگنگ


 

جنوبی امریکا اور ایشیاء کے کچھ علاقوں میں تازہ پانیوں میں تیرنے والا ایک انوکھا اور خوبصورت جاندار، ہمیشہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہا ہے، جو مچھلی بھی نہیں ہے، لیکن صاف پانیوں کی شان ہے۔ جسے ہم سب ’ڈالفن‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈالفن کو، زمین کی قدیم ترین مخلوقات میں گنا جاتا ہے۔ کچھ حیاتیاتی ماہرین کے خیال میں ڈالفن کا شمار شارک اور سمندری کچھوے کے خاندان میں ہوتا ہے۔ ڈالفن عام طور پر سمندروں میں پایا جانے والا میمل (ممالیہ / دودھ دینے والا جانور) ہے، لیکن بشمول دریائے سندھ، دنیا کے کچھ بڑے دریاؤں کی بھی زینت، بلکہ ان کی پہچان ہے۔ ’ڈولفنز‘ اور ’پورپوز‘ دراصل دو براعظموں کے کئی بڑے دریاؤں میں پائی جاتی ہیں۔ جن پانیوں میں ہماری سندھو ندی بھی شامل ہے۔

دریائی ڈولفن جن پانیوں میں رہتی ہے، وہ اس دریا کی صحت اور اس کے پانی کی تازگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ڈالفن کسی بھی گندے پانی میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر کسی میٹھے پانی کے ذخیرے میں ڈالفن کی آبادی پروان چڑھ رہی ہے، تو اس میٹھے پانی کے نظام کی مجموعی حالت بھی پھلنے پھولنے کے پورے امکان کا پتہ دیتی ہے۔ لیکن اگر ڈولفنز کی یہ آبادی کم ہو رہی ہے، تو اسے مجموعی طور پر خطے کے ایکو سسٹم کے لئے سرخ جھنڈی اور خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایسے دریا کا پانی صرف ڈالفنز کے لئے ہی نہیں، بلکہ پورے ماحول کے لئے خطرناک بنتا جا رہا ہے۔

’ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر‘ (فطرت کے تحفظ کا عالمی فنڈ) یعنی ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ ان دنوں ”ریور ڈولفن“ (دریائی ڈولفن) والے ممالک کے ساتھ ڈولفن کی مختلف انواع کو درپیش براہ راست خطرات کو ٹالنے کے لئے کام کر رہا ہے، تاکہ بائی کیچ اور انفراسٹرکچر، ان کی رہائش گاہوں کی حفاظت اور سائنسی تحقیق کو تقویت دینے کے لئے پالیسیوں اور طریقوں کو تبدیل کیا جا سکے۔ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں پائی جانے والی ’دریائی ڈولفن‘ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ ان کے طویل المدتی عملی حل تلاش کرنے کے حوالے انتہائی اہم اور تعمیری کام انجام دینے میں مصروف ہے۔

دریائے سندھ کی ڈولفن (جس کا سائنسی نام ”پلیٹینیسٹا گینگیٹیکا مائنر“ ہے ) ، اور جسے مقامی طور پر ”بلہنڑ“ یا ”اندھی بلہنڑ“ کے نام سے جانا جاتا ہے، بہت حوالوں سے دنیا بھر کی ڈولفن سے بہت مختلف ہے۔ اسے ”اندھی بلہنڑ“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں اتنی چھوٹی ہیں کہ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہ عملی طور پر نابینا ہے، اور پانی کے اندر صرف روشنی کی سطح اور سمت کو محسوس کر سکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دریائے سندھ کی ڈولفن، پاکستان میں دریائے سندھ کے نچلے حصوں، بالخصوص لائڈ بیراج سکھر سے کچھ اوپر کے علاقوں میں تیرتی ہے۔

اس سے ملتی جلتی اطوار والی ایک اور چھوٹی ڈولفن (جسے ’انڈس ڈولفن‘ کی بہن کہا جا سکتا ہے ) ، اپنی الگ تھلگ آبادی میں ہندوستان میں دریائے بیاس میں بھی پائی جاتی ہے، جسے ”سوسو“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ”سوسو“ ڈولفن کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ خلاف معمول گندے دریا کے پانیوں تک چلے جانے، عمومی ابلاغ اور شکار کے لئے ایکو لوکیشن پر انحصار کرتی ہے۔

1930 ء کی دہائی کے آغاز سے، متعدد ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر نے ہماری ’انڈس ڈولفن‘ کی آبادی کو چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر کے، ان کی رہائش گاہوں اور کالونیوں کو بری طرح متاثر کیا، اور یہ تعمیرات ان کی نقل مکانی میں رکاوٹ ڈال کر، دریائے سندھ کی ڈولفن کے ابتدائی زوال کا باعث بنیں۔ یہ معصوم ڈولفن بعض اوقات ماہی گیروں کے جالوں میں پھنس جانے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے راستوں میں بھی اٹک جاتی ہے اور اکثر آلودگی کے خطرات کا سامنا بھی کرتی رہتی ہے۔

’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ ، ایک قابل شمار عرصے سے دریائے سندھ کی ڈولفن کی ایک قابل عمل آبادی کے تحفظ اور اس کے مساکن (دریائی کالونیز اور محلوں ) کی حفاظت کے لئے مسلسل کام کرتا رہا ہے۔ جب کوئی انفرادی ڈولفن آبپاشی کی نہروں میں پھنس جاتی ہے، تو ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کے مقامی رضاکار، اس پھنسی ہوئی ڈولفن کے بچاؤ کے مشن میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ’رور ڈولفن ہاٹ لائن‘ بھی قائم کی گئی ہے، جس پر مقامی لوگ کسی ڈولفن کو مصیبت میں دیکھ کر کال کرتے ہیں، اور اس کی جان بچاتے ہیں۔

انہی کوششوں کے تسلسل کے طور پر، ”عالمی/ ورلڈ وائڈ فنڈ برائے فطرت“ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) اور اس کے تحقیقی شراکتدار، اب پہلی بار، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایمیزون میں دریائی ڈولفنز کا سراغ لگا رہے ہیں۔ جس کے تحت ان ڈولفنز میں ایک ایسا چھوٹا سا آلہ لگایا جا رہا ہے، جو ان کی حرکات، رویوں، اور انہیں درپیش خطرات کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کرے گا۔ جس کو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر مانیٹر کیا جا سکتا ہے اور اس کی بدولت کسی بھی مسئلے کی صورت میں اس کے ممکنہ حل کے لئے مقامی سطح پر عملی کارروائی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر کی ڈولفنز کو فطری و غیر فطری خطرات سے بچانے کے لئے سائنسدانوں نے برازیل، کولمبیا اور بولیویا میں 11 ڈولفنز بشمول ’ایمیزون‘ اور ’بولیوین ریور ڈولفنز‘ کے جسم کے ساتھ چھوٹے ٹرانسمیٹرز کو کامیابی سے منسلک کر کے ان کی ٹیگنگ کی۔ ان ٹیگز سے بذریعۂ سیٹیلائیٹ جمع کی گئی معلومات کے ذریعے ان ڈولفنز کے تحفظ اور ان کی رہائش گاہوں کی حفاظت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔

ہمیں دریائی ڈولفن کی مشہور اور منفرد حیثیت کے باوجود، ان کی آبادی اور رہائش کے بارے میں بہت کم معلوم حاصل ہیں۔ اس سیٹیلائیٹ ٹیگنگ کی مدد سے حاصل کیا جانے والا ڈیٹا، ہمیں ان سے متعلق دیگر اہم معلومات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بہتر مطالعہ کرنے میں بھی مدد دے گا، کہ ڈولفنز کیا کھاتی ہیں اور اپنی رہائش تبدیل کرنے کے لحاظ سے ایک مقام سے دوسری جگہ تک منتقلی کے لئے کتنی دور تک سفر کر سکتی ہیں یا کرتی ہیں۔

برازیل میں اس مہم کی قیادت کرنے والے ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کے تحفظ کے ماہر، ’مارسیلو اولیویرا‘ نے اس ضمن میں کہا کہ، ”اس سیٹیلائٹ ٹیگنگ کی بدولت باخبر رہنے سے ہمیں اس مشہور امیزونیائی نسلوں کی زندگیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی، جو ان کی اور پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لئے ہمارے نقطۂ نظر کو تبدیل کرنے میں مدد کرے گی۔ ان ڈولفنز کا سراغ لگانا ہمارے کام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے، کیونکہ ہم اس کی مدد سے آخرکار ایک ایسا نقشہ بنا سکیں گے، جس کی مدد سے ہمیں پتہ چل سکے گا، کہ جب یہ ڈولفنز ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، تو کہاں جاتی ہیں۔“

دریائی ڈولفنز کو محفوظ انداز میں وقتی طور پر پکڑ کر ان کی ٹیگنگ کا کام، ایک سخت پروٹوکول کی پیروی کرتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے، جو مکمل طور پر اس جانور کی فلاح اور بہبود کی ترجیحات کو نظر میں رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی ڈولفن زخمی نہ ہو۔ حال ہی میں سکھر بیراج کے قریب انڈس ڈولفن کی بھی انہی اصولوں اور پروٹوکولز کے تحت سیٹیلائٹ ٹیگنگ کی گئی اور نتیجتاً اس عارضی پکڑ کے بعد رہائی پا کر کسی ڈولفن نے برا اثر یا تاثر ظاہر نہیں کیا۔

’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کے پیشہ ور کارکن مندرجہ ذیل مراحل کی صورت میں ایک ریور ڈولفن کو محفوظ طریقے سے ٹیگ کرتے ہیں۔ اور عین اسی طریقے سے اندازہً مہینہ بھر قبل ابتدائی طور پر تین عدد انڈس ڈولفنز کی بھی پہلی بار سیٹیلائٹ ٹیگنگ کی گئی۔

مرحلہ 1 : مقامی ماہی گیر ان علاقوں میں جال بچھاتے ہیں، جہاں انہوں نے ڈولفن کی نقل و حرکت دیکھی ہوتی ہے۔ اس کار خاص کے لئے بنائے گئے جال بہت بڑے ہیں اور دریا کی چوڑائی کے ایک بڑے حصے کو گھیرنے کے لئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔

مرحلہ 2 : مزید ماہی گیر چھوٹے جالوں کے ساتھ پانی میں داخل ہوتے ہیں، اور آہستگی سے ہوشیاری کے ساتھ ڈولفن کو ایک ایک کر کے جال میں گھسیٹتے ہیں۔

مرحلہ 3 : وہ ڈولفن کو دریا کے ساحل پر لے آتے ہیں، جہاں سائنسدانوں نے ایک عارضی کیمپ لگایا ہوا ہوتا ہے۔

مرحلہ 4 : ماہر صحت آبی حیات اور ماہر حیاتیات، ڈولفن کے جسم کی مختلف قسم کی پیمائش کرتے ہیں اور نمونے (سیمپلز) لیتے ہیں۔

مرحلہ 5 : سائنسدان اس ’چپ‘ نما ٹیگ کو محفوظ طریقے سے ڈولفن کے جسم پر ’ڈورسل فن‘ کے ساتھ منسلک کر کے اس ڈولفن کا ایک مخصوص کوڈ معین کر لیتے ہیں، جو اس کا شناخت نمبر بن جاتا ہے۔ یہ سیٹیلائٹ ٹیگ لگانا ناخن چھیدنے کے جیسا معمولی عمل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ڈولفن کا پنکھ بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے یہ ٹیگ اندازہً چھ ماہ میں گر جاتا ہے، یعنی اس ڈولفن کو چھ ماہ بعد ٹیگ تبدیل کرنے کی دوبارہ ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ٹیگ، کسی گاڑی میں لگے ٹریکر کی طرح ہوتا ہے، جو نہ صرف اس بات سے آگاہ رکھتا ہے، کہ اس ڈولفن کی حرکت کا دائرہ کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے، بلکہ وہ اس کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، اس کے درجۂ حرارت اور ممکنہ بیماریوں، اس کو لاحق خطرات خواہ اس کی بدلتی طبعی کیفیات سے بھی کنٹرول روم کو آگاہ رکھتا ہے۔

مرحلہ 6 : دریائی ڈولفن کو اس ٹیگنگ کے بعد جلد از جلد واپس اس کے گھر (پانی) میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

مرحلہ 7 : یہ سیٹیلائٹ ٹیگ دن میں کم از کم ایک بار کنٹرول روم کو اس ڈولفن کی نقل و حرکت اور موجودگی کے مقام کے بارے میں معلومات بھیجتا ہے۔ ایک ٹیگ، چھ ماہ تک معلومات منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کچھ ٹیگز اس سے کچھ عرصہ زیادہ بھی چل جاتے ہیں۔

ایمیزون ریجن کوآرڈینیشن یونٹ کے ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کے ڈائریکٹر جورڈی سورکن نے کہا، ”اب کام کرنے کا وقت ہے۔ یہ ڈالفن کی آبادی اب بھی مضبوط ہے، اور ان کی رہائش گاہیں نسبتاً اچھی حالت میں ہیں۔ اگر ہم ابھی خطرات سے نمٹ لیں، تو ہم سب کے لئے مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔“

دریائے سندھ میں ’اں ڈس ڈولفن‘ (اندھی بلہنڑ) کی نسل کشی کے حوالے سے بالخصوص پچھلی دو تین دہائیوں میں جو فکر، فطرت کشی کے مترادف ایک عظیم مسئلہ بنتی جا رہی تھی، وہ ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کی جانب سے کیے گئے اس انقلابی اقدام کے بعد کم از کم اس اطمینان میں تبدیل ہو گئی ہے، کہ اب یہاں پائی جانے والی انڈس ڈولفن کی اس نادر نسل کی برادری کو غیر طبعی موت مرنے اور اس نسل کو ختم ہونے سے یقینی طور پر بچایا جا سکے گا اور اب اس خطے اور دریائے سندھ سے پیار کرنے والوں کو کافی حد تک یہ تسلی ہے کہ ہم ”ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر“ کی مدد سے اس ”سندھو کی ڈولفن“ کو معدوم ہونے سے بچا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments