اسرائیل کے صدر کی ترکی کی سر زمین پر آمد اور مسلم امہ پریشان حال


اس وقت اسرائیل کے صدر ترکی کی پاک سرزمین جو کبھی سلطنت عثمانیہ کہلایا کرتی تھی کے دورے پر ہیں اور ان کا وہاں بہت پرتپاک استقبال کیا گیا اور یہ معما سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے بنیادی تصور کے مطابق ”یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے“ کے باوجود انہیں جی آیاں نوں کیوں کہا گیا؟ جبکہ ہمیں ترکی والوں نے ارطغرل ڈرامہ تحفے میں پیش کیا ہوا ہے جس کے متعلق عمران خان نے بھی تعریفی کلمات ارشاد فرما دیے تھے اس کے بعد تو ہمارے لاکھوں لوگ جن میں اکثریت مذہبی طبقہ کی ہے بڑے ذوق و شوق سے اس سیریز کو انجوائے کر رہے ہیں۔

اس ڈرامہ میں دھڑا دھڑ کفار کی گردنیں کاٹنے کے مناظر فخریہ انداز میں دکھائے جاتے ہیں مگر دوسری طرف ترکی کے صدر طیب اردگان کافر سر زمین کے صدر کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہہ رہے ہیں اور بڑے بڑے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں اور ہمیں کسی اور طرف لگایا ہوا ہے۔ دوسری طرف ہمارا روحانی مرکز یعنی سعودی عرب نے بھی ہمارے ساتھ ہاتھ کیا ہے اور ”سانوں مذہب والے پل تے بلا کے سعودی ماہی لبرل ہو گیا“ ہمیں مدارس سے مالا مال کر کے خود سیکولر نظام تعلیم والوں سے ہاتھ ملا لیا ’کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

تقریباً تمام عرب دنیا کے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں، پپیاں جپھیاں بھی چلتی رہتی ہیں اور ضروریات زندگی کے اللے تللے بھی چلتے رہتے ہیں اور دشمنی و عداوت نبھانے کے لیے ہمیں منتخب کیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے جس کو جو چاہیے ہوتا ہے وہی ملتا ہے اور چاہت کے اعلی یا پست ہونے کا تعلق قوموں کے ذہنی معیارات سے ہوتا ہے اور جو قومیں دماغ کی بجائے جذبات کے اینگل سے سوچتی ہیں وہ ہمیشہ عقل والوں کی محکوم و غلام بنی رہتی ہیں اور پھر یہی عقل والے ان جذباتی بیوقوفوں کو وقت پڑنے پر چند ٹکوں کے عوض استعمال کرتے ہیں یہی قدرت کا اصول ہے جو طاقتور ہو گا وہی دنیا کے اکھاڑے کا مرد میدان کہلائے گا اور اس کی یہ عقلی مردانگی بھی اس وقت تک قائم و دائم رہے گی جب تک وہ عقل کو امام مان کر اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے قابل رہے گا۔

اس حقیقت کا زندہ موجودہ عجوبہ افغانستان ہے جو ہمیشہ دوسری قوموں کے ہاتھوں کھلونا بنا رہا اور نہ جانے کتنی بار یہ سرزمین دوسروں کے مفادات کے لئے استعمال ہوئی، نتیجہ کیا نکلا؟ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، مطلب طالبان کی اسلامی حکومت کے باوجود بھی خوشحالی ان کے قدم نہیں چوم سکی اور اس کے بعد کرزئی اور اشرف غنی بھی دولت کی دیوی کا اپنی سر زمین کے ساتھ وصال صنم کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وجہ صاف ظاہر ہے ”جذباتیت“ اور دنیا اچھے سے جانتی ہے کہ جذباتیت کی فیکٹریاں کہاں کہاں لگا کر ہمیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل ہوسکتے ہیں تو ضرورت پڑنے پر وہ اسی سر زمین میں یہ فیکٹریاں لگا لیتے ہیں اور جذباتی میٹیریل کو ویسے بھی وقتی طور پر پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے ان کا لانگ ٹرم یا شارٹ ٹرم مقصد اس دنیا میں کامیاب رہنا ہے کیونکہ آخرت میں ان کے تصور حیات کے مطابق انہی کی حکمرانی ہوگی تو اس کافر دنیا کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کرنی ہے مانگ تانگ کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف عرب دنیا ہے جن کی خاطر ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وہ اب اس مذہبی جذباتیت سے کافی حد تک مکت ہو چکے ہیں کچھ عرصہ پہلے فرانس کے صدر میکرون نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، ریڈ کارپٹ خوش آمدید کے بعد اس کافر دنیا کے حصول کے لئے تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔ یاد رہے یہ وہی میکرون ہے جس کی سرزمین پر مقدس ہستیوں کے خاکے بنائے گئے تھے جس کے نتیجہ میں ہم نے اپنا ملک جام کر کے اپنا ہی انفراسٹرکچر جلایا تھا، پوری عرب دنیا کے مسلمانوں میں نہ کوئی ہلچل مچی نہ کوئی شیشہ ٹوٹا اور میکرون جی مقدس سرزمین کی یاترا فرما کر بھی چلے گئے اور ہم یہاں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے چکر میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔

معاملات اس حد تک بڑھے کہ سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ پر بھی واضح موقف اختیار کیا اور ان کے سورسز پر سوال کھڑے کر دیے۔ یہ ہے وقت کا ظالم چکر جو گھوم گھام کر دنیا کی ہر قوم کو حقیقی تصویر دکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے جو قومیں وقت کی اس تصویر پر غور و فکر کر لیتی ہیں وہ کامیاب کہلاتی ہیں اور جو اس حقیقت سے روگردانی یا وقت گزاری کی کوشش کرتے ہیں وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انہی حقیقتوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں چھپی ہوتی ہیں صاحب عقل قدرت کی لفظی مالا جپنے کی بجائے قدرتی مظاہروں کو ٹیلی سکوپ کے ذریعے اپنی آنکھ کے بالکل قریب لاکر مشاہدہ کرتے ہیں جب کہ صاحب جذبات و ایماں ساری زندگی مالا جپتے رہ جاتے ہیں اور عقل والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments