پاکستانی حدود میں انڈین میزائل گرنے کا معاملہ: پاکستانی ردعمل کی تعریف اور انڈیا پر اٹھنے والے سوالات

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


’کسی بھی ملک کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی کوئی بھی شے حملہ ہی تصور کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں دفاعی قواعد و ضوابط تو یہی کہتے ہیں کہ میزائل آنے کی صورت میں آپ بھی جوابی حملہ کریں۔ تو پاکستان کی جانب سے ایسا نہ کرنا سمجھداری کے ساتھ ساتھ ایک سلجھا ہوا فیصلہ بھی ہے۔‘

یہ الفاظ انڈیا کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئیر فیلو سشانت سنگھ کے ہیں جنھوں نے نو مارچ 2022 کو پاکستان کے شہر میاں چنوں میں ’حادثاتی طور‘ پر انڈین براہموس میزائل گرنے کے بعد پاکستان کے ’سلجھے ہوئے ردعمل‘ کو سراہا۔

سشانت سنگھ واحد انڈین آواز نہیں جو اس معاملے میں پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات، ماضی قریب میں پیش آنے والے واقعات اور جوہری صلاحیتوں کے باعث یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ ’حادثاتی میزائل‘ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا تھا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا، جس کے لیے انڈیا کے کئی صحافی اور عسکری ماہرین پاکستان کی حکومت کو کریڈٹ دے رہے ہیں، خصوصا ایسے وقت میں جب انڈیا کی جانب سے اعتراف کرنے میں دو دن لگائے گئے۔

واضح رہے کہ نو مارچ کو پاکستان کے ضلع خانیوال کے قصبے میاں چنوں میں ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا۔ جس میں ایک انتہائی تیز رفتار شے اڑتی ہوئی مقامی رہائشی علاقے پر آگری۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر بابر افتخار نے 10 مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ‘تیز رفتار اڑتی ہوئی جو چیز میاں چنوں میں گری وہ غالباً انڈین میزائل تھا۔‘

انڈیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے اگلے دن یعنی 11 مارچ کو ایک بیان میں اعتراف کیا گیا کہ ’معمول کی دیکھ بھال کے دوران تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہو گیا تھا۔‘ جبکہ انڈین وزارتِ دفاع نے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔

اگر یہ میزائل کسی بڑے شہر کی طرف جاتا تو کیا ہوتا؟

نئی دہلی میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئیر فیلو سشانت سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت تمام تر بحث کا مرکز یہی ہے کہ اگر یہ میزائل کسی بڑے شہر کی طرف جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ تو شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘

سشانت نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی نظام خاصا بہتر ہے۔ ’لیکن اس کے باوجود کوئی بھی دفاعی نظام یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ سرحد پار سے آنے والا میزائل حادثاتی طور پر چلایا گیا ہے یا نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی کوئی بھی شے حملہ ہی تصور کی جاتی ہے۔ ‘ایسی صورت میں دفاعی قواعد و ضوابط تو یہی کہتے ہیں کہ میزائل آنے کی صورت میں آپ بھی جوابی حملہ کریں۔ تو پاکستان کی جانب سے ایسا نہ کرنا سمجھداری کے ساتھ ساتھ ایک سلجھا ہوا فیصلہ بھی ہے۔‘

’انڈیا کو بیان دینے میں دو دن کا وقت کیوں لگا؟‘

پاکستانی وزیرِ اعظم کے حفاظتی امور کے مشیر معید یوسف نے 11 مارچ کو ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ 40000 فٹ کی بلندی پر سپر سونک میزائل پاکستان کی سرحد میں آیا۔ اس میزائل کے لانچ ہونے کے بعد انڈیا کو یہ بتانے میں دو دن کا عرصہ لگا کہ میزائل حادثاتی طور پر لانچ ہوا ہے۔‘

واضح رہے کہ انڈین وزارتِ دفاع کا میزائل کے بارے میں بیان اس واقعے کے دو دن بعد یعنی 11 مارچ کو سامنے آیا۔

معید نے اپنے بیان میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات پر خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں اس وقت ایک فاشسٹ نظریے کی پیروی کی جارہی ہے جس کے تحت پاکستان پر 2019 میں حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔

انڈیا پر اٹھنے والے سوالات

انڈین براہموس میزائل

انڈین عسکری میگزین ’فورس‘ کے اڈیٹر پراوین سوہنے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس قسم کی بات کرنا کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیار سے لیس ہیں اور اس کا استعمال کرسکتے ہیں، یہ غیر ذمہ دار بیان ہے۔ اور اس سے مزید دہشت پھیلانے کی اور جھگڑے کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

پراوین نے کہا کہ پاکستان نے ’اس معاملے میں سمجھداری سے کام لیا ہے جو کہ ایک جمہوری حکومت میں ہونا چاہیے۔لیکن اس سے انڈیا پر اٹھنے والے سوالات کی شدت کم نہیں ہونی چاہیے۔ اور سوالات کیے جانے چاہییں، لیکن اسلحے کے استعمال اور جوابی کارروائی پر زور دینا صحیح نہیں ہے۔‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے بھی اسی طرز کے چند سوالات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

دفترِ خارجہ نے سنیچر کے روز بیان میں کہا کہ ’اس واقعے نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے جن کا جواب دینا ضروری ہے۔‘

  • انڈیا وضاحت کرے کہ حادثاتی طور پر میزائل فائر ہونے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات اور طریقے موجود ہیں، خصوصا اس واقعے کی تفصیلات سے متعلق پاکستان کو آگاہ کیا جائے۔
  • انڈیا کو اس میزائل کی قسم اور تفصیلات سے متعلق پاکستان کو وضاحت دینی ہو گی جو پاکستان کی زمین پر گرا۔
  • انڈیا کو یہ وضاحت بھی دینی ہو گی کہ یہ میزائل کس راستے پر تھا اور کیسے اچانک اس کا راستہ تبدیل ہوا اور یہ پاکستان میں داخل ہو گیا؟
  • کیا اس میزائل میں خود کو تباہ کرنے کا میکینزم موجود تھا؟
  • کیا معمول کی مشقوں اور دیکھ بھال کے دوران بھی انڈیا میں میزائل داغے جانے کے لیے ہر دم تیار رکھے جاتے ہیں؟
  • انڈیا نے فوری طور پر پاکستان کو آگاہ کیوں نہیں کیا کہ حادثاتی طور پر میزائل فائر ہوا ہے اور اس بات کا انتظار کیوں کیا گیا کہ پاکستان کی جانب سے اس واقعے کا اعلان کیا جائے گا اور وضاحت مانگی جائے گی؟
  • اتنی بڑی نااہلی کو دیکھتے ہوئے انڈیا کو یہ وضاحت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا اس کے میزائل واقعی اس کی مسلح افواج کے ہاتھ میں ہی ہیں یا پھر کسی اور کے؟

بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کم فاصلے اور جواب دینے کے وقت کے باعث کسی بھی جانب سے ایسے کسی واقعے کی غلط تشریح جوابی حملے کی شکل میں نکل سکتی ہے جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ جوہری ماحول میں ایسے واقعے کا سختی سے نوٹس لے۔

پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے اندرونی کورٹ آف انکوائری کے ذریعے اس حادثے کی تحقیقات کا فیصلہ ناکافی ہے کیوںکہ یہ میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، اس لیے پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے کے حقائق طے کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کی جائیں۔

دیگر کئی ماہرین نے بھی معتدد بیانات دیے ہیں کہ کیسے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان یہ معاملہ بڑھنے کی صورت میں خطے میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوا تھا: انڈین وزارت دفاع کا اعتراف

انڈیا اور پاکستان ممکنہ جوہری حادثات یا جنگ روکنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں؟

بالا کوٹ حملہ: جس نے انڈیا اور پاکستان کی جنگی حکمت عملی بدل دی

انڈیا کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا

انڈیا کی وزارتِ دفاع کے بیان کے بارے میں سشانت نے کہا کہ ’یہ ایک سرسری بیان ہے جس کو تب تک سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا جب تک انڈین وزارتِ دفاع کی جانب سے واضح نہ کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اور اس ضمن میں ہونے والی انکوائری کے نتائج پاکستان سے بھی شئیر کیے جائیں۔‘

سشانت سنگھ نے کہا کہ ’انڈین ڈی جی ایم او کی ہاٹ لائن سے بھی کوئی خبر نہیں دی گئی۔‘

واضح رہے کہ پاکستان اور انڈین فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان ہاٹ لائن رابطہ کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں ہنگامی طور پر معلومات کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا میں ایک بحث یہ بھی چھڑی کہ کہیں اس کا تعلق انڈیا میں ہونے والے الیکشن سے تو نہیں۔ کچھ بیانات میں اس واقعے کو ’مودی کی سازش‘ کے طور پر بھی پیش کیا جارہا ہے۔

لیکن انڈیا میں ریاستی الیکشن سات مارچ کو ختم ہو چکے تھے اور دس مارچ تک نتائج بھی سامنے آچکے تھے۔

سشانت سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’ہوسکتا ہے کہ بیک ڈور یا غیر رسمی طور پر پاکستان کو بتایا گیا ہو۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہے تو انڈین وزارتِ دفاع کو صاف الفاظ میں بتا دینا چاہیے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان میزائل کے بارے میں اطلاعات شئیر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟

پاکستان اور انڈیا

پچھلے 17 برسوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چھ بڑے تنازعات چھڑے ہیں جن کو بات چیت اور بین الااقوامی مداخلت کے بعد ختم کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں میزائل کا حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بیانیے کو دونوں ملکوں میں ماہرین تشویش سے دیکھ رہے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری اور ہتھیاروں کے معاہدوں کو شیئر کرنے کے بارے میں بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔

21 فروری 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حفاظتی یاد داشت پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس ایم او یو میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کے بیلسٹک میزائل کا ٹیسٹ کرنے سے پہلے بتائیں گے۔ دونوں ممالک زمینی یا بحری بیلسٹک میزائل لانچ کرنے سے تین دن پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔ اور آگاہ کرنے کی ذمہ داری دونوں ملکوں کے دفترِ خارجہ اور ہائی کمیشن پر ہو گی۔

اس کے علاوہ بھی کئی ایسے معاہدے طے پائے ہیں جن کے تحت پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے سے ہر سال یکم جنوری کو جوہری ہتھیاروں کے مقامات (سائیٹ) کی فہرست کا تبادلہ کرتے ہیں۔

دونوں ممالک میں یہ بھی طے پایا ہے کہ اگر مسلح لڑاکا طیارے 10 کلومیٹر کی سرحدی حدود میں اڑیں گے تو انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کو بتائیں گے۔

تیسرا معاہدہ جوہری حادثے سے متعلق ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں سے کسی میں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کو مطلع کریں گے۔

تاہم پچھلے 17 سال کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدے تو طے پائے ہیں لیکن اسی دوران ہتھیار خریدنے اور جمع کرنے کی رفتار میں بھی تیزی دیکھنے کو ملی۔ نتیجتاً بہت سے نئے ہتھیار ان معاہدوں کا حصہ نہیں ہیں۔

حفاظتی امور کے ماہر سید محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیلسٹک میزائل پر تو باظابطہ طور پر معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں لیکن نئے میزائل جیسے کہ سپر سونک پر اب تک کوئی بات یا معاہدے طے نہیں پایا ہے۔

سنہ 2005 میں پاکستان نے انڈیا سے کروز میزائل کے ٹیسٹ کے بارے میں بھی معاہدہ طے کرنے کی بات کی تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع دے سکیں۔ لیکن انڈیا نے اس بات کی حمایت نہیں کی۔

11 اگست 2005 میں پاکستان نے پہلے کروز میزائل بابر کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بابر کی جدید قسم بھی بنائی۔ جس کے بعد ائیر لانچ کروز میزائل راعد بھی آ گیا۔ اسی طرح انڈیا نے بھی کروز میزائل بنائے جن میں براہموس شامل ہے۔

براہموس کی بھی چار اقسام ہیں جن میں زمین سے زمین پر مار کرنے والا، فضا سے زمین پر، سمندر کی سطح سے زمین پر اور سمندر کی سطح سے نیچے مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔

سید محمد علی کہتے ہیں کہ ’اسلح جمع کرنے سے زیادہ اس وقت اس کی دیکھ بھال اور حفاظت زیادہ ضروری ہے۔‘

محمد علی نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کروز میزائل کے معاہدے پر دستخط ہونا چاہیے تاکہ اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔

محمد علی نے کہا کہ وہ انڈیا کے اس بیان سے کہ یہ میزائل ’حادثاتی طور‘ پر لانچ ہوا، اتفاق نہیں کرتے۔ ‘یہ میزائل کو کپڑا مارتے ہوئے چلنے والا حادثہ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ اس کا تعلق صرف اس بات سے نہیں ہے کہ صفائی کرتے ہوئے بٹن دب گیا اور میزائل چل گیا۔ ’اس کا تعلق صرف تکنیکی باتوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق کمانڈ اور کنٹرول کے نظام سے بھی ہے۔ یہ میزائل کس کے کنٹرول میں ہیں، کیا جس افسر کے ماتحت یہ میزائل تھے ان کے یا ان کی ٹیم کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟ اجازت کون دیتا ہے کہ میزائل لانچ کر دیں؟ اس بات کا جواب ضروری ہے کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔‘

محمد علی نے کہا کہ اگر انڈیا کے میزائل کے نظام اور جوہری پروگرام کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ نظام محتاط اور محفوظ طریقے سے نہیں چلایا جا رہا۔

’بین الااقوامی سطح پر بھی اس واقعے کی اور انڈیا کے جوہری ہتھیار اور میزائل کو سنبھالنے کے نظام پر تفتیش ہونی چاہیے۔ اور جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان کا مصدقہ جواب مل سکے۔‘

واضح رہے کہ انڈیا میں ایسے واقعات پہلے بھی ہوئے جن کے بعد دفاعی صلاحیتوں پر سوالات اٹھے۔

انڈین آبدوز (سبمرین) اریہنت کے بارے میں 2018 میں انڈین اخبار دی ہندو میں خبر دی گئی تھی کہ غلطی سے ہیچ کھلا رہنے کی وجہ سے جوہری نظام سے چلنے والی سبمرین میں سمندری پانی آگیا تھا۔ اس سبمرین کی خاصیت تھی کہ یہ سرپرائیز حملے کی صورت میں استعمال کی جا سکتی تھی۔

پلوامہ حملے کے بعد انڈین فضائیہ کی جانب سے پاکستان میں بالاکوٹ حملے کے بعد جب پاکستانی فضائی نے اگلے دن جوابی کارروائی کی تو انڈین ایئر فورس نے اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا تھا، جس پر سوار تمام چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments