موجودہ سیاسی بحران اور اسٹیبلشمنٹ کا مخمصہ!


وزیراعظم عمران خان کی حالیہ تقریروں، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی آئے روز میڈیا ٹاکس اور ’خوشگوار نوٹ‘ پر اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونے وا لے لانگ مارچ میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کی گئی زبان کی تلخی، لہجے میں حقارت اور چہروں پر کچھی نسوں سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دور حاضر کے سیاسی مشاہیر کے بس میں ہو تو ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں۔

ہماری سیاست میں سیاسی حریفوں پر ذاتی حملے اور جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے نام بگاڑنا آج کی اختراع نہیں۔ منظم مہم کی صورت کردار کشی اگرچہ نوے کی دہائی میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب شریف خاندان سیاست میں وارد ہوا۔ عمران خان نے جمائما کے بعد ریحام خان سے شادی کی تو وہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔ تاہم ایک ہی سال کے اندر جب خانگی حالات نے کروٹ بدلی تو اسی خاتون کی ’بیڈ روم سٹوریز‘ پر مبنی کتاب سے غلاظت وقتاً فوقتاً اور حسب ضرورت استعمال کی جاتی رہی ہے۔

یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آج کل خاتون اول کو بعض مخصوص حلقوں کی طرف سے تضحیک پر مبنی ایسی ہی مہم کا سامنا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جہاں وزیر اعظم کے طیش کی ایک وجہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کے تناظر میں کچھ ’پرانے ساتھیوں‘ اور کچھ اتحادیوں کا رویہ ہے تو وہیں ان کے لہجے کی بے پناہ تلخی کے پیچھے ذاتی رنج و غم کا بھی ضرور کچھ اثر ہے۔

وجوہات جو بھی ہوں یہ بہرحال طے ہے کہ ملک اس وقت انتشار کی اعصاب شکن کیفیت سے دوچار ہے۔ کسی زندہ معاشرے میں کار فرما گروہوں کے مابین محاذ آرائی اچنبھے کی بات نہیں۔ موجودہ صورت حال مگر قابل تشویش یوں ہے کہ متحارب گروہوں میں نفرتیں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں جبکہ واپسی کے راستے معدوم ہو چکے دکھائی دیتے ہیں۔ انصاف کی بات سننے اور کہنے کو کوئی تیار نہیں۔ مولانا کے زردی پوش جتھوں کی پارلیمنٹ لاجز سے بے دخلی کے لئے کیے گئے پولیس ایکشن پر اپوزیشن رہنماؤں کا رد عمل قابل فہم ہے، تاہم بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلح جتھوں سے الرجک دانشوروں، جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کا پرچار کرنے والے صحافتی اور قانونی حلقوں کی جانب سے بھی تاحال انصار الاسلام کی پارلیمنٹ میں موجودگی پر کوئی مذمتی بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ایک حالیہ مضمون میں محمد وسیم کی تازہ کتاب Political Conflict in Pakistan میں سے حوالہ جات کے ذریعے پاکستان جیسے ملکوں میں آئے روز سیاسی محاذ آرائی اور بے یقینی کی وجوہات پر دلچسپ بحث سمیٹی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انتشار کی حدوں کو چھوتی دائمی سیاسی محاذ آرائی ( (Political Conflict نو آبادیاتی تاریخ رکھنے والے ممالک میں ناکام طرز حکمرانی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمہ وقت سیاسی بحران کی سی کیفیت کی وجوہات میں ماڈرن ریاست اور مذہبی روایت پرستوں میں کشمکش، ریاستی اداروں کی ساخت، ان سے وابستہ توقعات اور زمین پر موجود ان کے حقیقی عزائم اور کارکردگی کے علاوہ مغربی جمہوریت کے اصولوں اور مقامی و مذہبی روایات کے مابین پائے جانے والے تضادات شامل ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ دائمی سیاسی محاذ آرائی (Conflict) جن دو مستقل فریقین میں جاری رہتی ہے ان میں سے ایک فریق مڈل کلاس پر مشتمل ہے کہ جو خود کو ریاستی اداروں کے ساتھ صف آراء پاتا ہے تو دوسری طرف دوسرا فریق روایتی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی صورت کھڑا نظر آتا ہے۔ مڈل کلاس قومی مفادات (National Interest) کی بات کرتی ہے تو سیاست دان مقبولیت پر مبنی عوامی مفادات (Public interest) کو مد نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہر دو فریقین عالمی، علاقائی اور مقامی معاملات کو اپنی اپنی عینک سے دیکھتے ہیں۔ مصنف کا خیال ہے کہ اسی سیاسی محاذ آرائی کے نتیجے میں نوآبادیاتی ممالک میں سول ملٹری کشمکش جنم لیتی ہے۔

عمران خان ایک سیاست دان ہیں، مگراس باب میں ان کا مقام اچھوتا ہے کہ وہ مڈل کلاس اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بل بوتے پر کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لے کر برسر اقتدار آئے ہیں۔ چنانچہ سیاست دان ہوتے ہوئے بھی روایتی سیاستدانوں کو چیلنج کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ جو چند سیاسی جماعتیں اب تک ان کی اتحادی ہیں، ان کی مجبوریوں اور اتحاد کے پس پشت محرکات کو سمجھنا دشوار نہیں ہو نا چاہیے۔ تاہم محمد وسیم کے پیش کردہ نظریے کے عین مطابق تین بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف صف آراء ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نا صرف عمران خان کو اقتدار میں لانے بلکہ اس کے دوام کا بھی باعث ہے۔ کچھ عرصہ پہلے روایتی سیاستدانوں کے اسی گروہ نے اسی بناء پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں کئی ماہ تک فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو انتہائی کڑی اور کئی مواقع پر نامناسب تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ہم نہیں جانتے کہ یہ عمران حکومت کی بظاہر کارکردگی (Perceived performance) کا نتیجہ ہے یا کہ مہینوں پر محیط اسٹیبلشمنٹ پر بے رحم تنقید کا اثر ہے کہ بحران کے عین عروج کے وقت متعین انداز میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرنا ضروری سمجھا گیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک ہر دو پہلو کارفرما ہو سکتے ہیں۔

اولاً، کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی کارکردگی کی بناء پر مہنگائی کے ہاتھوں ستائے جونیئر اور مڈل رینکس اینڈ فائلز (مڈل کلاس) کی جانب سے سال 2014 ء کے بعد اعلیٰ قیادت پر عمران خان کی حمایت کے لئے اٹھنے والے اندرونی دباؤ کی شدت کسی حد تک کم ہو گئی ہے تو ثانیاً گمان کیا جا سکتا ہے کہ ادارے کی ’الیٹ‘ نے اپنے ایک ساتھی کے خاندانی کاروباری معاملات سامنے آنے اور مریم نواز کی جانب سے ان پر بے رحم تنقید کو دیکھتے ہوئے عبرت پکڑی اور کم از کم غیر جانبداری میں ہی عافیت جانی ہے۔

دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ بات تحریک کی ناکامی یا کامیابی پر ختم نہیں ہو گی۔ محاذ آرائی (Conflict) کی حالیہ خوفناک کیفیت میں اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جاتی ہے تو بے یقینی قائم رہے گی۔ اسٹیبلشمنٹ پر اپوزیشن کا دباؤ برقرار رہے گا۔ تاہم اگر اپوزیشن عمران خان کو گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا اسٹیبلشمنٹ کے لئے عمران خان کی حمایت کھو کر مغربی ممالک کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے والے سیاسی خاندانوں پر بھروسا کرنا ممکن ہو گا؟ کیا کیری لوگر بل کی پیشگی شرائط کسی کو یاد ہیں؟ چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سول ملٹری کش مکش ختم ہو جائے گی؟

عمران خان کے مخالفین ان کو گرانا چاہتے ہیں۔ کم ازکم پنجاب کے معاملے میں ناقابل فہم ضد نے یوں بھی اس باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ عالمی حالات کے پیش نظر، اپوزیشن ملک کو درپیش خارجی، سیاسی اور معاشی چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہو گی، یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ محاذ آرائی کی جھلسا دینے والی تپش میں کون خود کو کس حد تک اور کب تک ’غیر جانبدار‘ رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments