کیا عمران خان کو محفوظ راستہ دیا جائے گا؟


صاف نظر آ رہا ہے کہ خود پسند اور گھمنڈی کپتان بری طرح سے اپنے سیاسی و دیگر مخالفین کے گھیرے میں آ چکا ہے اور یہ بات بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ اسے بالکل بھی عوامی یا میڈیائی حمایت نہیں مل رہی ہے تو اس کی وجہ اس کے عوام دشمن اقدامات ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس گمبھیر صورت حال میں بھی اسے اپنے مخالفین کو دھمکیاں اور پھبتیاں سوجھ رہی ہیں اور وہ بھی اس نامناسب اور بچگانہ انداز میں کہ سننے والے گھروں میں بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ شخص ملک کے ایک بہترین تعلیمی ادارے ایچی سن کا سٹوڈنٹ رہا ہے؟ اور دنیا بھر میں شہرت و قدر کے حامل ادارے آکسفورڈین یونیورسٹی سے بھی اس نے کچھ نہ سیکھا ہے؟

پھر برطانیہ جو مہذب ترین قوم کا دیس کہلاتا ہے، اس نے بھی اس کی اخلاقی تربیت نہیں کی؟ 22 سال یہ شخص کہاں جھک مارتا رہا؟ اور اب ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر بھی اس نے کچھ سبق حاصل نہ کیا ہے؟ اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگانا تو اس کا وتیرہ ہے ہی لیکن انہیں ”فضلو“ زرداری بیماری، شوباز، ڈاکو، چوہے اور پتا نہیں کن کن ناموں سے پکارتا پھرتا ہے، کل تک یہ کہا کرتا تھا کہ کرپٹ لوگوں کے لیے کوئی باہر نہیں نکلا کرتا مگر سب دیکھ رہے کہ بلاول کا عوامی مارچ سندھ سے چل کر پنجاب کے کئی شہروں سے گزرتا ہے لیکن کہیں ایک بھی شخص اس عوام مارچ کے سامنے آ کر عمران خان کے حق میں نعرے لگاتا ہوا نہیں ملا ہے تو اب مطلب یہی ہے کہ کپتان بھی کرپٹ ہے، کرپٹ نہ ہوتا تو کوئی ایک آدھ تو باہر نکلتا، پھر کپتان فرمایا کرتے تھے کہ میری ٹیم میرے ساتھ میرے مشن اور ایجنڈے پر کھڑی ہے لیکن کپتان کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے یہ ترین گروپ اور علیم خان گروپ کیسے سامنے آ گئے؟

اور گھبرائے ہوئے کپتان کو یہ کہنا کیوں پڑ گیا کہ فوج کبھی پاکستان کے خلاف نہیں چلے گی، مطلب اگر فوج کپتان کے سیاسی مخالفین کے بخیے ادھیڑنے کے لیے آگے قدم بڑھائے تو پاکستان کی خیرخواہ ہے ورنہ وہ بھی شوباز، فضلو اور زرداری بیماری کی طرح ملک و قوم کی دشمن ہے، کمال شخص ہے کہ آرمی چیف اسے مخالفین کے بے ہودہ نام لینے سے منع کرتا ہے اور موصوف ہیرو بنتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہوئے کہ وہ آرمی چیف کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، پھر ڈیزل ڈیزل کی نہ صرف خود تکرار کرتے ہیں بلکہ عوام سے بھی کہلواتے ہیں اور ان کی یہ حرکت کن حلقوں میں بری محسوس کی گئی ہو گی؟

اس کے لیے کسی بقراطی دانش کی ضرورت نہ ہے کہ ملک کا آرمی چیف جس سے کی گئی گفتگو یوں جلسوں جلوسوں میں کبھی کوئی نہیں کیا کرتا ہے اسے یوں شوخی، لاپروائی اور ڈھٹائی سے موصوف کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جان بوجھ کر اعلی عہدوں کی توہین کا احساس پیدا ہوتا ہے اور پھر کل تک ٹی وی چینلز پر وزیراعظم عمران خان آرمی چیف کو دھڑلے سے نیوٹرل کہا کرتے تھے اور اب اپنی حکومت ڈانواں ڈول دیکھ کر اور ایک صفحہ اپنی حرکتوں سے لیرولیر پاکر وہ ایک نہیں دس قدم آگے بڑھا کر ”نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے“ کی نئی منطق گھڑتے ہیں اور خود کو بابو پاک دامن سمجھتا یہ شخص دوسروں کو صرف اپنی حمایت کا کہتا ہے حالانکہ اس کے فارن فنڈنگ کیس کے معاملات ایسے خطرناک اور سنجیدہ ہیں کہ اس کی طرف سے 5 سے زائد درخواستیں الیکشن کمیشن کو دی گئی ہیں کہ

”فارن فنڈنگ کی تفصیلات عوام سے مخفی رکھی جائیں“

اب اگر ایک بندہ صاف شفاف ہے تو اسے تو چاہیے کہ وہ خود اپنا حساب کتاب آگے بڑھ کر دے اور اپوزیشن کے دنوں موصوف بڑھ چڑھ کر حضرت عمرؓ کے کرتے کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وقت کے حاکم سے سوال کیا جاسکتا ہے اور اپنی باری آئی تو موصوف اپنی ہی پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کو گزشتہ کئی سالوں سے بھگائے پھر رہے ہیں اور تفصیلات دینے سے یکسر انکاری ہیں اور مبینہ طور پر موصوف کی پارٹی کو  ہندوستان تک سے فنڈنگ ہوتی رہی ہے۔

پھر ان کا دوسرا خطرناک معاملہ توشہ خانے بارے معروف صحافی ابرار خالد اٹھائے ہوئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف دھمکیاں مل رہی ہیں بلکہ ان کے گھر ”نامعلوم افراد“ بھی گھس چکے ہیں جو کہ انہیں ڈرانے کی کوشش ہے اور یہ کسی صادق و امین کو زیب نہیں دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف نے توشہ خانہ کیس میں بھی عدالت میں لکھ کر دیا ہے کہ

”توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے سے دوست ملکوں سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں“

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اپوزیشن دور میں موصوف توشہ خانے کے ان تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کے مطالبے ببانگ دہل کیا کرتے تھے اور اس وقت انہیں دوست ملکوں بارے ایسی کسی حساسیت کی مطلق خبر نہ تھی۔ اس کیس کے مدعی صحافی ابرار خالد نے ابھی حال ہی میں پھر مطالبہ کیا ہے کہ اگر وزیراعظم صحیح معنوں میں صادق و امین ہیں تو فی الفور آگے بڑھیں اور عوام کو غیر ملکی سربراہان سے ملے تحائف کی تفصیلات سے آگاہ کر کے ثواب دارین حاصل کریں اور اپنی مقدس ذات پر لگے الزام کو دھونے کا جتن کریں اور مخالفین کو سربازار شرمسار کریں۔

ایک اہم بات یہ کہ وزیراعظم جب ایسے کسی ”برحان“ (بحران کو یہ نیا نام موصوف نے حافظ آباد کھڑے ہو کر دیا، بلاول بھٹو کو اردو سیکھنے کا طعنہ دینے والے موصوف رحونیت، پاس ماندہ، ماشیت اور اس طرح کے کئی اور نئے الفاظ بھی لغت اردو کا حصہ بنا چکے ہیں ) میں پھنستے ہیں تو انہیں بھولے بسرے اتحادی بھی یاد آ جاتے ہیں اور تیزی سی اٹھتی ہوئی ”ماشیت“ بھی، اب یہ اور بات ہے کہ وہ جہانگیر ترین جو ان کے لیے جہاز چلاتا نہ تھکتا تھا جس پر اپوزیشن اے ٹی ایم کی پھبتی کستی تھی بھی نواز شریف کے بعد خود کو نااہل قرار دلوانے کو ”سکور برابر“ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں اور پھر جس طرح انہیں اور ان کے بچوں یہاں تک کہ بیٹی تک کو مقدمے میں نامزد کر کے تنگ کیا گیا اس کے بعد سے وہ زخمی سانپ بنے ہوئے ہیں اور ”حساب برابر“ کرنے کا موقع آتے ہی اب وہ الگ سے گروپ بنا کر علیم خان کی طرح نہ صرف عمران خان کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں بلکہ ان کی لندن میں عمران خان کے سب سے بڑے دشمن سے ملاقاتوں اور رابطوں کی کہانیاں بھی سیاسی میدان میں دھماچوکڑی مچائے ہوئے ہیں اور وہ علیم خان جو اپنے ساتھی اور بزنس پارٹنر ایم پی اے ظہور چوہان کی گرفتاری پر وزیراعظم سے رابطوں میں ناکامی پر برہم ہیں اور گزشتہ تین سالوں میں ٹھکرائے جانے پر ان کا غصہ بھی آسمان پر پہنچا ہوا ہے اور اب وہ بھی لندن میں اس نواز شریف سے ملنے پہنچا ہوا تھا جس کے بارے پوری تبدیلی سرکار ایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ

”نواز شریف پاکستانی سیاست کے لیے غیر متعلق ہو چکا ہے“

اور اب عمران خان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا فیصلہ بھی اسی ”غیر متعلق“ ہی کے ہاتھوں میں ہے اور جو تین سالوں سے ن سے ش اور م نکالنے میں ناکام رہے وہ اپنی نہ ت بچا سکے اور نہ ہی ع بلکہ ان کی تو بقول شخصے پوری الف ب پ ے ہی الٹی اور بکھری ہوئی نظر آ رہی ہے جو کہ ان کے متکبرانہ رویوں اور گھمنڈ پنے کی وجہ سے بھی ہے اور ان کے سارے اتحادی ان سے منہ موڑے کھڑے ہیں اور اب جب کہ نمبرز پورے نہ ہوتے نظر آرہے ہیں تو انہوں نے آرٹیکل 63 اے کا ڈراوا دے کر اپنے ممبران کو ڈرانا شروع کر دیا ہے اور ان کی یہ اسٹریٹجی بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہے کہ اپنے مشکوک اراکین کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیں گے یا پھر سپیکر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایسے مشکوک لوگوں کے ووٹ گنتی کا حصہ ہی نہ بنائے گا، حالانکہ قانونی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ووٹ دینے سے کسی کو نہ روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ووٹ کو گنتی کے عمل سے باہر کیا جاسکتا ہے ہاں ووٹ ڈالنے کے بعد ان اراکین کے خلاف پارٹی سربراہ کی شکایت پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ پھر ان کے وزیراطلاعات کی دھمکی بھی سننے کو ملی ہے کہ

”ووٹنگ والے روز ووٹ ڈالنے والوں کو عوام کے پی ٹی آئی کے مجمع سے گزر کر اندر جانا ہو گا اور واپسی بھی اسی مجمع کے اندر سے ہو گی اور پھر دیکھیں گے کہ کیسی صورت حال بنتی ہے“

یہ صاف اور کھلی دھمکی ہے اور اس سے بھی خطرناک بات پی آئی اے پر اپنے ایک جلد باز اور احمقانہ بیان کے ذریعے دنیا بر میں پابندیاں لگوا کر اور اس کا بھٹہ بٹھا کر دوسرے وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان نے این اے 59 پڑیال راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران تباہ کن غصے کے انداز میں تقریر کرتے ہوئے کی کہ

”میرا دل کرتا ہے کہ جہاں اپوزیشن والے ملک و دین کے دشمن بیٹھے ہوں وہاں میں خودکش حملہ کر کے انہیں نیست و نابود کر دوں۔ میری تو یہ سوچ ہے“

حیرت ہے کہ پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان گرے لسٹ سے کیوں نہیں نکل رہا ہے؟ اور اسے انتہا پسند ملک کیوں گردانا جاتا ہے؟ جب حکومت میں ایسے وزیر بیٹھے ہوں گے اور ملک کا وزیراعظم اسمبلی میں کھڑا ہو کر اسامہ بن لادن سے شخص کو ”شہید“ قرار دے گا اور امریکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران داعش اور طالبان کو پاک فوج کے ذریعے تربیت دیے جانے اور ایرانی صدر کے ساتھ بیٹھ کر میڈیا ٹاک میں ہاکستان سے ایران دہشت گردوں کی دراندازی کا اعتراف کرے گا تو کیا گرے لسٹ سے ملک نکل سکے گا؟

ان کی زبانیں ملک کے خلاف جیسے چلتی ہیں ویسے دنیا کے کسی اور حکمران اور اس کے ہمنواؤں کی زبانیں نہ چلتی ہیں اور المیہ ہے ملک کا، وزیراعظم وہ شخص ہے جو کبھی ہندوستان میں مودی کی جیت کی خواہش کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے ٹویٹ کیا کرتا تھا اور پھر اب نہایت ڈھٹائی سے مودی دوست دوسرے سیاسی مخالفین کو کہتا ہوا ملتا ہے۔

آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ وزیراعظم ڈی چوک میں 10 لاکھ لوگوں کو لانے کے دعوے کر رہے ہیں حالانکہ یہ پاور شو انہیں اپنے 172 اراکین کے ساتھ اسمبلی کے اندر کرنا چاہیے اب یہ بات عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک سٹوڈنٹ کو امتحان میں جب پرفارمنس دکھانے کے لیے کہا جائے تو وہ بجائے پرفارمنس دکھانے کے کتابوں کا ڈھیر لگا کر اپنی ”پرفارمنس“ دکھانے کی راہ اختیار کر لے، کیا یہ ہنسنے کی بات نہیں کہ آئینی و قانونی راستے پر چلنے کی بجائے وزیراعظم بضد ہیں کہ وہ جلسے جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں سے اپنی ”اکثریت“ ثابت کریں گے جب کہ انہیں اکثریت صرف اسمبلی میں ثابت کرنی ہے اور وہاں اکثریت ثابت کرنے سے نجانے کیوں ان کی ”کانپیں ٹانگ“ رہی ہیں۔

اب اس صورت حال میں چونکہ وزیراعظم کا مستقبل خاصا مخدوش سا نظر آ رہا ہے تو کھلے لفظوں میں ان کے لیے ”محفوظ راستے“ کی کہانیاں بھی وفاقی دارالحکومت کے اعلی ترین حلقوں میں گردش کر رہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ سیٹ چھن جانے کے بعد وزیراعظم جو کہ ”خطرے ناک“ ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں کو دوستوں اور خیر خوایوں کے ذریعے مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ آپ پتلی گلی پکڑ کر اپنے بچوں قاسم اور سلمان کے دیس چلے جائیں جہاں کی جمہوریت اور انصاف آپ کو بہت مرغوب ہیں اور جہاں آپ زندگی کی ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی کی رعنائیوں اور دلکشیوں کے مزے بھی لیتے رہے ہیں اور اور ان کے پرانے جاننے والے کہتے ہیں کہ چونکہ عمران خان کا مزاج ایسا نہیں ہے کہ وہ جیل کی سختیاں، عدالتوں کے دھکے سہ سکیں اور غیر مقبولیت کی منحوس گھڑیوں کی ٹک ٹک بھی سن سکیں اس لیے وہ باقی ماندہ زندگی آرام و سکون سے گزاریں کہ ملک و قوم ان کی مقبولیت کے مزے اچھی طرح سے چکھ چکا ہے اور پھر ان کے کزن حفیظ اللہ نیازی سمیت بہت سے دوسرے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ موصوف عدلیہ تحریک کے دنوں میں جب چند دنوں کے لیے جیل گئے تو ملنے والوں سے باقاعدہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ التجائیں کیا کرتے تھے کہ

”مجھے یہاں سے فوراً نکلواؤ یہاں مچھر بہت ہیں“

اور پھر سابق آمر مشرف بھی کئی بار اپنے ملنے والوں کو بتایا کرتے تھے کہ عمران خان کو رہا کرنے کے لیے ان کے پاس بہت سفارشیں آیا کرتی تھیں اور پھر انہیں ترس آ گیا اور انہوں نے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ عمران خان بھی منصب عظمی سے ہٹنے کے بعد عرصہ دراز کے لیے اگر کہیں گئے تو وہ ملک برطانیہ ہی ہو گا جو کہ بقول عمران خان ”بھگوڑے“ پاکستانی سیاستدانوں کی پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان اپنی بنائی کسی پناہ گاہ میں رہ نہ سکیں گے اور اس سے بڑا المیہ بھلا اور کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments