کیا مولانا فضل الرحمٰن ایک سنگدل قسم کے ساہو کار ہیں؟


ملک پاکستان میں مولوی کو سٹریٹ پاور کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے یہ مذہب کے نام پر چند سیکنڈ میں لاکھوں انتہاپسندوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی اسی صلاحیت کا دیدہ یا نادیدہ قوتیں فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد چند گھنٹوں میں حاصل کر لیتی ہیں۔ مگر ان کے ساتھ جو المیہ والا معاملہ ہے وہ بہت سنگین ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے آج تک انہیں اقتدار کی مچان تک پہنچنے نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عوام کی پولیٹیکل وزڈم اتنی میچور ہو چکی ہے کہ وہ مذہبی جلسے جلوسوں اور اجتماعات یا مذہبی معاملات کی حد تک تو دل کھول کر ان کا ساتھ دیتے ہیں مگر اقتدار کا اہل نہیں سمجھتے یا وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ مولانا صاحبان عوام سے وصول کرنا تو جانتے ہیں مگر ان کو کچھ دینا بالکل نہیں۔

ہر الیکشن میں تمام فرقوں کے علماء ریاستی معاملات میں گھسنے کے لیے اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر اسلامک فرنٹ یا ملی یکجہتی ٹائپ اتحاد بنا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کا یہ ظالم نشہ جو ایک دوسرے کے پیچھے خوشدلی سے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے محض کرسی کی خاطر اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ استاد محترم وجاہت مسعود کی گفتگو سن رہا تھا۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے لئے ایک منفرد لفظ استعمال کیا جو مولانا کی شخصیت کا خلاصہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس لفظ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایسا بندہ جو سنگ دل قسم کا ساہوکار ہو جو عوام کو زیادہ سود پر قرض دیتا ہو۔ تو کیا اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ مولانا صاحب ساہوکار ہیں جو اپنی سخت شرائط پر قرضہ دیتے ہیں؟ کیا وجاہت مسعود کے کہنے کا مطلب بھی یہی ہے؟ ہرگز نہیں اس لفظ کا مفہوم یہاں کچھ اور ہے جس طرح سے ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں جنہیں مضمون یا پیراگراف کی مجموعی وزڈم کے مطابق ایڈجسٹ کر کے مفہوم تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے بالکل اسی طرح لفظوں کے شیڈوئی معنی بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی فہم و بصیرت کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی بصیرت کے بل بوتے پر خود کو ایک ایسے مقام تک لے آئے ہیں جہاں مختلف فرقوں کے بڑوں کے علاوہ سیاسی فرقوں کے بڑوں کو بھی اکثر ان کی خدمات کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اسی وجہ سے یہ حکومت کا حصہ بن کر اپنا اچھا خاصا شیئر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بہت سوں کا یہ خیال ہے کہ خان صاحب کی واحد حکومت ہے جس میں مولانا صاحب بیروزگار رہے ہیں مگر ایسا بالکل نہیں ہے یوں سمجھ لیں جس طرح سے ایک پیر اپنی روزی کو بڑھانے کے لیے مختلف علاقوں میں اپنے خلیفے بناتا ہے تاکہ گلشن کا کاروبار اچھے طریقے سے چلتا رہے بالکل اسی طرح مولانا صاحب چند ممبران کو اسمبلی پہنچا کر اپنا شیئر حاصل کر لیتے ہیں چہ جائیکہ خود منتخب ہوں یا نہ ہوں مگر ملک کے سسٹم میں ان کا دھندا چلتا رہتا ہے اب کیا خیال ہے کہ مولانا صاحب اتنے سیدھے اور سادہ دل ہیں کہ وہ گیم چینجر کا کردار نبھانے کے لیے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اپنی خدمات ایویں پیش کر دیتے ہیں؟

وہ اس سسٹم کے چند ایسے سیانوں میں شمار ہوتے ہیں جو اندر تک گھسے ہوئے ہیں اور بڑے اچھے سے جانتے ہیں کہ سسٹم سے گھی کیسے نکالنا ہے۔ پی ڈی ایم کی سربراہی کوئی پھولوں کا بستر نہیں ہے بلکہ بہت کچھ اول فول اپنے خلاف سننا پڑتا ہے جس کا مولانا صاحب میں بہت حوصلہ ہے اور ان بدزبانیوں کا صلہ مع سو گنا ٹیکس، جو بھی حکومت بنے گی، مولانا صاحب وصول کر لیں گے۔ مولانا صاحب اپنے طلسماتی و کرشماتی شخصیت کا فائدہ کسی کو فری میں نہیں اٹھانے دیتے، وزیراعظم تو کبھی نہیں بنے نہ ہی اتنا بڑا قومی وزن اٹھانے کی ان کو ضرورت ہے جب ہر حکومت میں وزیر اعظم جیسا پروٹوکول فری میں مل رہا ہو تو پھر مشکل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments