عمران نیازی صاحب کا جانا کیوں ضروری ہے؟


سوشل میڈیا پر اک گفتگو چل رہی ہے کہ ساڑھے تین برس تو نکال لیے، اگلے ڈیڑھ بھی نکل جانے تھے تو لہذا متحدہ اپوزیشن کو عمران نیازی صاحب کو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالنے میں کوئی حکمت موجود نہیں۔ میرے خیال میں، جس کی کم از کم میرے لیے تو اہمیت ہے، انہیں طاقت کی پوزیشن سے نکالنا اک بڑی اور چار اس سے جڑی ذیلی وجوہات کی بنا پر بہت ضروری ہو چکا تھا۔

1۔ فوج کے چیف کی تقرری کے معاملہ میں ان کے پاس اک ایگزیکٹو اتھارٹی ہے اور ان کی ”پشاور والے بندے“ سے محبتیں کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ چند روز قبل فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور وہ جو یہ بات کرتے ہیں، وہ ثبوت پیش کریں۔ یاد پڑتا ہے کہ مشہور ٹی وی کے اک رپورٹر نے احتساب عدالت سے نکلتے اک کرنل صاحب کو تاڑ لیا تھا۔ بعد میں ان رپورٹر کو راتوں رات اپنی جان بچانے کے لیے لندن بھاگنا پڑا۔ ثبوت تو مریم اورنگزیب نے بھی کالز کی صورت میں دے رکھا ہے۔ تو اس قسم کے حالات میں عمران نیازی صاحب اگر اپنی مرضی کا فوجی چیف لے کر آ سکتے ہیں تو پاکستان کی سیاست، کہ جس کے ساتھ معیشت جڑی ہوئی کیا بہتری نکل سکتی تھی، میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ طاقت کا ننگا ناچ کرنے والوں کو جب یہ معلوم ہو کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، تو وہ بے حیا تو ہو جاتے ہی ہیں، وہ بے پرواہ بھی ہو جاتے ہیں کہ اپنی دیہاڑی یہی تین، پانچ برس ہے۔ لگاؤ، نکلو۔

1۔ 1۔ عمران نیازی صاحب کی حکومت نے سماج کا دہانہ اور حلیہ بگاڑا۔ ان کے بیانیہ نے پاکستان میں اک نارمل حیثیت اختیار کر لی ہے۔ سیاسی بدتمیزی اور سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور ٹرینڈز کی بنیاد پاشا تحریک انتشار نے رکھی اور اس پر عمارت عمران نیازی صاحب کے لمڈوں نے تعمیر کی۔ ان کے تقریباً تمام نمائندگان صرف بکواس میں ماہر رہے، دیہاڑیاں لگاتے رہے۔ لگا لی ہیں تو تین، پانچ برس کے دیہاڑی بازوں کی طرح وہ بھی ”لگاؤ، نکلو“ پر اپنی عملی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے۔ اس بندوبست کو کیا مزید ساڑھے چھ برس ملنے چاہیے تھے؟ بدحکمتی ایسی کہ فوج کے ترجمان کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، تو عمران نیازی صاحب کہتے ہیں کہ انہیں جنرل باجوہ نے ”ڈیزل“ کہنے سے منع کر رکھا ہے۔ ذرا تصور تو کیجیے کہ عین یہی رویہ اگر میاں صاحب اور زرداری صاحب اختیار کر لیں تو وطن کے بہت سے اداروں کا معاملہ کیا ہو گا؟ میاں صاحب کی گوجرانوالہ کی اک تقریر نے وطن میں سیاست کا کیسا رنگ کر دیا تھا، یاد تو کیجیے۔

1۔ 2۔ حکومت نے احمقانہ طرز سے طاقت کی بدمعاشی کو رواج دیے رکھا۔ آپ کو میاں نواز شریف یا آصف زرداری سے اربوں گلے ہوں گے، جو اک مرتبہ پھر پاشا تحریک انتشار کی دین ہے، مگر 2008 کے بعد طرفین کی اک دوجے کی جانب حماقتیں بھی رہی ہیں، مگر وہ ارتقا کر رہے تھے۔ عمران نیازی صاحب نے اس ارتقا کو ریورس گیئر لگایا، اور اک بار نہیں، درجنوں بار مسلسل طاقت کے اندھے استعمال کیے۔ ان کے اپنی حکومت کا احتساب دیکھ لیجیے اور مقابلہ میں سیاسی اپوزیشن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بھی دیکھ لیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مریم نواز کی بلٹ پروف گاڑی پر کوٹ لکھپت جیل کے باہر سنائپر شاٹ بھی لیا جا چکا ہے۔ پتھر لگنے سے بلٹ پروف شیشے پر دراڑیں نہیں پڑتی۔ زرداری صاحب، خورشید شاہ، فریال تالپور، مفتاح اسمعیل، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، مریم نواز، سعد رفیق، سلمان رفیق، فواد حسن فواد، احد چیمہ، اور ان کے علاوہ بھی بہت ساروں نے طاقت کی بدمعاشی کو بھگتا ہے۔ اس سے احتساب کو کتنا فائدہ اور کریڈیبلٹی ملی، اس بحث میں جائے بغیر یہ بتا دوں کہ ایسے فاشزم سے ریاست کی توقیر ملکی اور غیرملکی طور پر منفی ہوتی چلی جاتی ہے اور اک وقت آتا ہے کہ ملکی ریاستی و آئینی اداروں کا کوئی احترام باقی نہیں رہتا۔ آپ میں سے کتنے ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ ججز کا دل سے احترام کرتے ہیں، یا کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ پاکستانی آئینی ادارے مثبت ارتقا کر رہے ہیں؟

1۔ 3۔ معاشی بدحکمتی آپ کے سامنے ہے۔ ایک ہی پھٹا ہوا ریکارڈ ہے جو بار بار بجتا ہے۔ معیشت میرا میدان نہیں، مگر معاشی حالات کے زخم خوردہ تو میں بھی ہوں۔ میرا گزارا تو ابھی بھی چل جاتا ہے۔ یہ مگر بتا دوں کہ اسلام آباد میں ڈیڑھ لاکھ کمانے والے کا گزارہ بھی اب بہت مشکل ہو چکا ہے۔ وطن میں کتنے لوگ ڈیڑھ لاکھ کماتے ہیں، ذرا بتائیے تو؟ آپ عالم اسلام اور اسلاموفوبیا پر جتنی مرضی ہے دھمالیں ڈالتے رہیں، گھر میں بھوک ناچے تو جسم فروشی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اسی مثال کو آپ پاکستان کے تزویراتی موضوعات کی جانب تو ذرا لے کر چلیں کہ بھوک کی موجودگی میں کس کس کی، کون کون سی بات نجانے کہاں کہاں ماننی پڑے گی۔ انسانیت پر اللہ کا احسان رہنما و حکومت، ساڑھے چھ برس مزید میں اس بدقسمت ملک کو کہاں سے کہاں لے جائیں گے، اس کا اندازہ خود ہی لگا لیجیے۔

1۔ 4۔ ریاستی بے توقیری کا اک اندرونی اور بیرونی عالم ہے۔ ہمارے جرنیل سمجھتے نہیں، اور اگر سمجھتے بھی ہوں تو یہ اس سے بھی بڑی زیادتی ہے کہ ریاست صرف مضبوط سیاست کے ساتھ ہی ارتقا کر سکتی ہے۔ مضبوط سیاست کا تعلق صرف اور صرف عوام میں جڑوں سے ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی فوج کی کبھی مدد کی، مگر دونوں جماعتوں نے بعد ازاں اپنے آرگینک ارتقا میں اپنی اپنی طرز کی بڑی قیمتیں بھی ادا کیں۔ ان قیمتوں میں پیپلز پارٹی کا حصہ بہرحال زیادہ ہے، مگر مسلم لیگ نواز کو بھی بہت بلڈوزنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مگر اک الگ موضوع ہے۔ تو فرض کیجیے کہ ساڑھے چھ برس یہ حکومت مزید چلتی ہے تو ریاستی بے توقیری، کہ جس میں عام شہری بھی بے توقیر محسوس کرتے ہیں، کا عالم کیا ہو گا؟ میں یہ نہیں کہتا کہ اپوزیشن ڈیڑھ ہفتے میں سب ٹھیک کر لے گی، مگر صاحب، پہلے بھی انہی سیاسی جماعتوں نے تین چار برسوں میں معاملات بہتر کیے ہیں۔ یہ دوبارہ بھی کر لیں گی بس یہ کہ راولپنڈی میں کسی جنرل صاحب کو کسی رات حسین خواب نہ آئے اور صبح کسی نئے پاکستان کی تعمیر نہ شروع کر دیں۔

میری خواہش ہے کہ سیاست، عمران نیازی صاحب کے ذات سے پرے ہو اور اپنے نارمل ارتقا پر واپس آ جائے۔ عمران نیازی صاحب ہولے ہولے تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گے۔ آپ میں سے وہ جو پاور پالیٹکس کے طالبعلم ہیں، وہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ صاحب وہیں جائیں گے۔ اس سارے سفر کا مشاہداتی لطف آ رہا ہے۔ عمران نیازی صاحب کو کہنا مگر یہ ہے کہ: آپ نے بس گھبرانا نہیں۔ پاکستان بھر کے ٹوائلٹس بس ٹھیک کر کے ہی جائیے گا۔ آپ کا بہت شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments