یوکرائن یا روس کے لیے شہد کا جال


پاکستان میں اچھے بھلے صاحب فہم بھی اسی فکری مغالطے کا شکار ہیں کہ ہم نے سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اکثر پاکستانیوں کے نزدیک لفظ سوویت یونین اور اور روس میں کوئی فرق نہیں، اسی طرح پاکستان میں اکثریت کے نزدیک سرد جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں روسی پروردہ حکومت روسی فوجوں اور پاکستان کے حمایت یافتہ مجاہدین کے مابین لڑی گئی۔

ہمارے نزدیک اس سرد جنگ کا جو سادہ سا خلاصہ بنتا ہے وہ یوں ہے کہ روس نے افغانستان میں اپنی مرضی کی ایک حکومت قائم کی جو روس نواز اور بھارت نواز تھی جس نے پاکستان مخالف افراد کو افغانستان میں پناہ اور تربیت دینا شروع کی جس کے رد عمل میں پاکستان نے پہلے خود سے اس کے خلاف جہاد کا آغاز کیا اور بعد ازاں اس میں امریکی مدد بھی شامل ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ مجاہدین نے سامراجی روس کو شکست دی اور اس کے نتیجے میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

بدقسمتی سے افغانستان بارے تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان میں ہر دو جانب سے دیانتداری کا فقدان ہے جیسے ہم جیسے جمہوریت پسند اس سارے قضیے میں صرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ضیا الحق کو ہی مجرم گردان کر خوش ہو جاتے ہیں تو دوسری جانب بھی اس جنگ کو ہی سرد جنگ اور روس کی تباہی کی واحد وجہ سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ دونوں تجزیات ہی غلط ہیں۔

افغانستان کی جانب سے مداخلت کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد سے جاری تھا جن میں پاکستان پر دو بار ریاستی سطح پر باقاعدہ ناکام فوجی حملے بھی شامل ہیں۔ دوسری بات کہ افغان جہاد کا آغاز ضیا الحق نے نہیں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کیا تھا لیکن اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سرد جنگ کا میدان کوریا سے ویتنام، چیکوسلواکیہ سے فن لینڈ اور پولینڈ تک پھیلا ہوا تھا اور اس کے آخری محاذوں میں سے محض ایک افغانستان بھی تھا۔ افغانستان میں سے روسی انخلا کسی طور بھی کسی علامتی فوجی شکست کے بھی بغیر ہوا تھا بلکہ اگر ہم سخت گیر پیمانوں سے اس کی جانچ کریں تو جواب ہماری ادراکی سوچ

(perception)

سے مختلف ہو گا جیسا کہ تمام تر افغان خانہ جنگی اور روس کے افغانستان کو مکمل طور پر فوجی سطح پر چھوڑنے کے بعد بھی کابل پر وہی حکومت براجمان تھی جسے نکالنے کے لیے یہ جنگ لڑی گئی لیکن چونکہ یہ ہی وہ وقت تھا جب ماسکو نے سوویت یونین نامی ریاستی کنفیڈریشن کو تحلیل کرنے کو فیصلہ کیا تو دنیا کے طاقتور ترین میڈیا ہاؤسز نے اسے روس کی شکست میں ڈھال دیا۔ اور ظاہر ہے کہ روس کی جانب سے نہ تو اس پراپیگنڈہ کو زائل کرنے کا کوئی وسیلہ موجود تھا اور نہ ہی دلچسپی۔ یوں یہ مغالطہ خوب بکا اور ہنوز قائم ہے۔ حالانکہ اس کی منطقی حقیقت اتنی ہی ہے کہ آج کوئی بچا کھچا نازی یہ دعوی کر دے کہ ہم نے برطانوی افواج کو جنگ عظیم میں کھینچ کر برطانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

لیکن اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے سرد جنگ میں سوویت یونین نے بے مقصد محاذ کھولے اور ان محاذوں پر فوجی وسائل کے لیے خود کو اس معاشی گرداب میں پھنسا لیا جہاں وہ ایک جانب اسلحے کے انبار لگاتا چلا گیا وہیں ماسکو میں ڈبل روٹی لینے کے لیے قطاریں لگنا شروع ہو گئیں ماسکو اشرافیہ کے ذہن میں یہ سوال کلبلانے لگا کہ ہم کیوں فیڈریشن کے نام پر ریاستوں کو پال رہے ہیں۔ حیران کن طور پر سوویت یونین کی تحلیل بطور منصوبہ سوویت یونین کے مرکز روس سے پھوٹی تھی دنیا کی کسی قابل ذکر یونیورسٹی کی اسٹڈی ریسرچ میں اس کا ذکر تک ہی نہیں تھا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نوے کی دہائی میں تحلیل ہونے کے بعد سویت یونین میں سے روس بچ جانے کے بعد روس آج پھر عالمی بساط کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ روس کی بے پناہ زمین، وسائل اور کم آبادی کے ساتھ اسلحے کا تسلسل وہ قوت ہے جس کی بدولت روس ایسی کپیسٹی رکھتا کہ وہ کم از کم اشتراک (اشتراکی نہیں ) میں سپرپاور بن سکے۔ چین بطور دنیا کی فیکٹری روس کو اپنی انرجی مائن بنا سکتا ہے۔ عالمی سیلیکون انڈسٹری کے جواب میں روس کی اپنی ایک آئی ٹی کی الگ دنیا ہے جس پر کسی کی دسترس نہیں لیکن روسی ہیکرز کی دسترس امریکی انتخابات تک مسلمہ ہے۔

روس آج بھی دنیا سے الگ جی پی ایس کی جگہ گلوناس استعمال کر رہا ہے۔ روسی آف گرڈ لیونگ عالمی سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے متبادل کھڑا ایک انوکھا لائف اسٹائل ہے کہ ایک کمیونٹی ساری دنیا حتی کہ اپنے ملک سے بھی تقریباً کٹ کر کیسے ایک مطمئن زندگی گزار سکتی ہے۔ اور اس سب سے بڑھ کر اسلحے کا وہ ذخیرہ جو کئی حوالوں سے امریکہ پر برتری رکھتا ہے۔

میری رائے میں روس کو یوکرائن میں اسی انداز میں پھنسایا جا رہا ہے جس طرح سوویت یونین کے انہدام سے پہلے روس نے خود کو دنیا بھر میں اوور سٹریچ کر لیا تھا۔ اگر حالات کا دور سے مشاہدہ کیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ روس کی اس کھلی جارحیت پر روس کو مسلسل اکسایا جاتا رہا۔ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کا رویہ روس کو چڑھانے سے زیادہ کہیں محسوس نہیں ہوتا۔

عالمی سطح پر ایک بھی سنجیدہ کوشش کم از کم میرے علم میں ایسی نہیں جس میں جنگ بندی کی کوشش کا گمان محسوس ہو۔ لیکن یہ ضرور نظر آتا ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ یوکرائن ایک لمبے عرصے تک سلگتا ہوا (بھڑکتا ہوا نہیں ) میدان جنگ ثابت ہو۔ دنیا بھر سے جہادیوں کی طرز کے جنگجو یوکرائن بلانے چھوٹے ہتھیار دینے کا اعلان وغیرہ اسی طرح کی خواہش کے غماز لگتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ روس کیا خود کو امریکی سکرپٹ اگر کوئی ہے کے مطابق استعمال ہونے دے گا یا عقل سے کام لے گا۔ مجھے اگرچہ خدشہ ہے کہ روس مشرقی انا کے تابع جنگ کے رومانس میں مبتلا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments