منچھر جھیل مر رہی ہے!


ایشیا کی میٹھے پانی کی بڑی جھیل سمجھی جانے والی منچھر جھیل اب سیم اور تھور کی جھیل بن گئی ہے۔ ماضی میں منچھر جھیل کو تین وسیلوں سے میٹھا پانی ملتا تھا۔ ایک بڑا ذریعہ برساتی ندی نالے تھے جس میں گاج ندی اہم ہے۔ علاوہ ازیں سول، تکی، سوری، نلی، ککڑانی، ہلیلی، کھندھانی، انگئی اور نئیگ وغیرہ بھی ہیں جن کا بارشوں کے موسیم میں پانی منجھر جھیل میں پڑتا تھا۔ دوسرا وسیلا ایم این وی ڈرین (Main Nara Valley Drain) تھا جو انگریز دور میں بنا اور جس کے ذریعے حمل جھیل کے ساتھ ساتھ مغربی نارا کینال کا پانی منچھر جھیل میں پڑتا تھا۔ تیسرا وسیلا سیہون کے قریب اڑل کینال تھا جس کے ذریعے مون سون کی بارشوں میں دریائے سندھ کا پانی منچھر جھیل میں لایا جاتا تھا۔

جب منچھر میں میٹھا پانی تھا تب منچھر جھیل ماہی گیروں کے لئے تو خوشحالی کا باعث تھی مگر علاقے کے علاوہ پورے سندھ اور پاکستان کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مچھلیوں اور پرندوں کی مختلف اقسام کا شکار ہوتا تھا۔ منفرد قسیم کی سبزیاں ہوتی تھیں جنہیں سندھی زبان میں ’بہہ‘ ، ’کم‘ ، ’لوڑھ‘ کہتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا گھاس ہوتا تھا جس کے پتوں کی چادریں بنتی تھیں۔ ان چادروں کو سندھی زبان میں ’تونری‘ کہتے ہیں جو گرمیوں میں چارپائی پر رکھتے تھے تو گرمی کم ہوتی تھی۔ ان سبزیوں اور چادروں کی تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ منچھر کے کناروں پانی کم ہوتے ہی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمیں پر گندم اور سرسوں کی فصلیں ہوتی تھیں۔

مگر جب سے منچھر جھیل کو آر بی او ڈی (RBOD) کے ذریعے سیم اور تھور کے زہریلے کالے پانی کا تالاب بنایا گیا ہے تب سے کالے پانی کی سزا بھگت رہی ہے۔ منچھر جھیل کی ساری معاشیات اور اقتصادیات تباہ ہو گئی ہے۔ ماہی گیر فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ منچھر جھیل اجڑ گئی ہے اور اب میٹھے پانی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے مگر کوئی نہیں جو اس کی صدا سنے۔

منچھر جھیل ایک تہذیب کا نام بھی ہے۔ جس کے کناروں پر قبل مسیح دور کے آثاروں کے ساتھ ساتھ وادیٔ سندھ کی تہذیب کے مقامات بھی ہیں جو مٹ رہے ہیں۔ ان میں لہڑی، پیر مشاخ، ٹہنی اور پیر لاکھیو کے مقامات اہم ہیں۔ پیر لاکھیو کے تاریخی مقام کے لئے این جی مجمدار کی رائے ہے کہ یہ موہنجو دڑو کی تہذیب کا دوسرا مرکز تھا۔ یہاں موہنجو دڑو کی باقیات زیادہ ملی تھیں۔

بلاشبہ منجھر جھیل مر رہی ہے۔ اس کو تین طریقوں سے میٹھا پانی دے کر بچایا جا سکتا ہے۔ ایک گاج ندی جو اکثر علاقے میں سیلاب کا سبب بنتی ہے اس کے بہاو کو مضبوط اور مستحکم بنا کر اس کا پانی منجھر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ دوسرا، جوہی بیراج کے ذریعے منچھر کو میٹھا پانی دیا جا سکتا ہے۔ تیسرا آر بی او ڈی کے زہریلے پانی کو منچھر کے بجائے سمندر تک بہایا جائے یا پھر اوپر سے آنے والے زہریلے پانی کو کسی حکمت عملی سے راستے میں ہی روکا یا گم کیا جائے۔ اس طرح منچھر جھیل مرنے سے بچ سکتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments