حرارت کی میکانیات پہلی قسط


ایک کمرے میں سگریٹ کے دھویں کے مالیکیولوں کی رفتار آواز کی رفتار سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر سگریٹ کا دھواں آواز سے زیادہ رفتار سے کیوں نہیں پھیلتا؟

1857ء میں روڈولف کلاشیس نے اپنے پرچے ”حرارت نامی حرکت کی نوعیت“ میں حرارت کی پیمائش یعنی درجہ حرارت کو گیس مالیکیولوں کی حرکت سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پہلی مرتبہ یہ تجویز پیش کی کہ مالیکیول صرف خطی حرکت نہیں بلکہ دائروی اور غزال حرکت بھی کرتے ہیں۔ اس تجویز کی مدد سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ مالیکیولوں کی رفتار آواز کی لہروں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس اس نے دیکھا کہ ان اضافی حرکات کے باوجود مالیکیول تیز رفتار حرکت کرتے ہیں۔

تب اس نے ایک اور تجویز پیش کی کہ شاید مالیکیولوں کی رفتار بہت تیز ہونے کے باوجود ایک مالیکیول زیادہ دیر تک خط مستقیم میں سفر نہیں کر پاتا۔ اس کی بڑی وجہ گیس مالیکیولوں کی بڑی تعداد ہے۔ ایک محدود جہت کے ڈبے میں بھی اربوں کھربوں میں مالیکیول موجود ہوتے ہیں اس لئے ایک مالیکیول صرف ایک خاص فاصلے جسے ”اوسط فاصلہ“ کہتے ہیں، تک ہی آزادانہ سفر کر پاتا ہے اور پھر کسی دوسرے مالیکیول سے جا ٹکراتا ہے۔ یوں بہت سارے مالیکیول آپسی دھکم پیل سے مجموعی طور پر زیادہ دور تک سفر نہیں کر پاتے (یاد رہے کہ گیس کا ڈبے میں بند رہنا شرط ہے ) ۔ لہذا جب سگریٹ کے دھویں کا کوئی مالیکیول اس گیس کے واسطے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا چاہتا ہے تو مسلسل دھکے کھانے کی وجہ سے اس کی اوسط رفتار کم ہوجاتی ہے۔ یوں سگریٹ کے دھویں کے پھیلنے کی شرح، گیس کے مالیکیولوں کی رفتار سے کم رہتی ہے۔

1859ء میں جب کلاشیس کا یہ پرچہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا تو اسکاٹش سائنسدان جیمز کلارک میکسول کی اس پر توجہ ہوئی اور پھر اس نے اس خیال پر مزید کام کرنا شروع کیا اور سات سال کے عرصے میں گیسوں کے لئے حرکی توانائی کے نظریے کی بنیادیں رکھیں۔ اس نے اس پرچے میں یہ ثابت کیا کہ ایک (کلاسیکل) گیس کے مالیکیولوں کی رفتار ایک اوسط رفتار کے اردگرد برابر شرح سے کم ہوتی ہے۔ یہ وہی میکسول ہے جس نے اسی دوران برقیات اور مقناطیسیت کی دو فطری قوتوں کی یکجائی کا کام بھی کیا۔

اسی دوران آسٹریا جرمنی میں ایک گریجویٹ طالبعلم لدوخ بولٹزمین کو اس کے ایک استاد نے میکسول کے کام کی طرف متوجہ کیا۔ بولٹزمین ایک انتہائی لائق طالبعلم تھا۔ اس نے اول تو میکسول کے کام کو سمجھنے کی خاطر انگریزی سے جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور پھر اس پر مزید کام کر کے تین سالوں ہی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ پچیس برس کی عمر میں وہ ایک جامعہ میں استاد کے طور پر تعینات ہو چکا تھا۔ وہ ایک بہترین استاد بھی تھا اور تحقیق میں بھی اول درجے کے سائنسدانوں میں شمار ہوتا تھا۔

بولٹزمین نے میکسول کے کام کو مزید مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اس کے 1868ء کے پرچے میں اس نے فرض کیا کہ اگر ایگ گیس زمین سے اوپر اٹھنا شروع کرے تو چونکہ بلندی پر ہوا کا دباؤ کم ہوتا جاتا ہے، تو گیس مالیکیولوں کی تعداد اسی حساب سے بڑھنا شروع کرے گی (کیونکہ پریشر کی کمی سے حجم میں اضافہ ہوتا ہے ) ۔ یوں اس نے حساب لگایا کہ ان مالیکیولوں کی رفتاروں میں کیا تناسب ہو گا جو کہ پھر میکسول کے نتیجے ہی پر پہنچتا ہے یعنی کہ مالیکیولوں کی رفتار میکسول کے گراف (Maxwellian velocity distribution) کو ہی پہنچ جاتی ہے۔

یوں بولٹزمین نے ایک طرح سے میکسول کے نتیجے کو مزید ٹھوس بنیاد فراہم کی۔ آج کلاسیکل فزکس کے نظریات میں کسی بھی کلاسیکی گیس (ایک ایسی گیس جس میں ذرات یا مالیکیولوں کی تعداد بے حد زیادہ ہو) کے لئے اگر ذرات کی رفتار یا پھر توانائی کا حساب لگانا ہو تو اسے میکسول بولٹزمین ڈسٹری بیوشن کے تحت ہی سمجھا جاتا ہے۔

چونکہ ہم نے اپنی بات کا آغاز حرارت کے نظریے سے کیا تھا تو کیوں نہ اس تصور حرارت کو مزید دیکھ لیا جائے کیونکہ اکثر عوام کے ہاں نیوٹن کے میکانکی قوانین حرکت تو سامنے ہوتے ہیں لیکن حرارت سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ جبکہ شاید یہی وہ شعبہ ہے جہاں سے فزکس میں بہت سے نئے سوالوں نے جنم لیا اور ایسے تصورات سامنے آنے لگے جو دیگر اجسام اور ان کی حرکت کے برعکس بدیہی کم اور ثانوی زیادہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حرارت کو سب سے پہلے جس شخص نے دریافت کیا اس نے اسے لیٹنٹ ہیٹ (Latent heat) کا نام دیا اور لاطینی زبان میں لیٹنٹ کا مطلب ہوتا ہے مخفی یا چھپا ہوا۔

کبھی ابلتے ہوئے پانی کو مزید گرم کرنے کی کوشش کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ آگ کی حرارت برابر پانی میں داخل ہو رہی ہے لیکن اسے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ رہا جیسے کہ آگ کی توانائی کہیں غائب ہو رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کیمسٹری میں اس لیٹنٹ ہیٹ کو کسی مادے میں فیز کی تبدیلی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میکسول کہتا تھا کہ حرارت ایسی بے کمیت مخفی توانائی ہے جو اشیاء میں جذب ہو کر انہیں تبدیل ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یہ جیمز جول (James Joule) نامی شراب بنانے والا ایک سائنس کا شیدائی تھا جس نے پہلی مرتبہ حرارت کو پردہ غیب سے میکانکی دنیا میں متعارف کروایا۔ اس نے اپنے تجربات سے دکھایا کہ کیسے حرارت کی وجہ سے کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یوں کسی جسم پر حرارت کی وجہ سے ہونے والے کام کی مقدار (Work) کو ماپا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنا یہ مقالہ 1848ء میں آکسفورڈ میں پیش کیا۔ اس کے کام کو ایک بڑے مشہور سائنسدان ولیم تھامسن نے اپنے مشہور ”پیڈل تجربے“ کی شکل میں 1849ء میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

یوں ثابت ہوا کہ ابلتے پانی میں جو توانائی اضافی داخل ہو رہی تھی وہ غائب نہیں ہوتی بلکہ ورک یعنی کام کرنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ اس سے فزکس کی دنیا میں پہلی مرتبہ ایک ایسی شے متعارف ہوئی جو نہ تو کبھی پیدا ہو سکتی تھی اور نہ فنا ہو سکتی تھی بلکہ وہ ہمیشہ سے موجود ہے اور رہے گی۔ اس شے کو انرجی کا نام دیا گیا۔ اور اس قانون کو ”پہلا حرحرکی قانون“ (First law of Thermodynamics) کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں تھامسن نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگر کسی کنٹینر میں موجود گیس یا کسی بوتل میں موجود پانی کو گرم کیا جائے تو اس کے اندر ایک طرف تو حرارت سے اس کے مالیکیولوں پر کام ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کی داخلی طبیعت بھی تبدیل ہوتی ہے جس سے اس نے داخلی توانائی (internal energy) کا تصور بھی پیش کیا۔

تھامسن ہی نے انرجی کی دو مشہور شکلوں یعنی کائنیٹک اور پوٹینشل انرجی کی تقسیم بھی پیش کی۔ اور چونکہ یہ انیسویں صدی کا نصف تھا جب کہ ابھی تک سائنس سے خدا مکمل طور پر رخصت نہیں ہوا تھا اس لئے جیمز جول سمیت اکثریت نے اس انرجی میں خدا کی سی صفات کا مشاہدہ بھی کیا۔ جس کے باقیات آج بھی بہت سے مباحث میں مل جاتے ہیں۔

بہرحال اس قانون سے حرارت کو بطور توانائی ایک مستند حیثیت میں تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن اس عہد میں کچھ اور نئے سوال بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ یہ کہ اس دور میں ابھی تک ایٹم یا مالیکیول کا تصور پوری طرح ثابت نہیں ہوا تھا اور ادھر حرارت کو براہ راست گیس میں موجود ذرات کی حرکت سے جوڑا جا رہا تھا۔ ایٹمی نظریے پر بہت سے جید سائنسدان بھی تشکیک کا شکار تھے۔ ایک اور بات یہ کہ اس وقت کی فزکس ایسے قوانین اور اشیاء کی تلاش میں تھی جو ثابت اور مستحکم ہوں۔ جن میں فطرت ایک جبر کے طور پر کام کرے (شاید یہی وجہ ہے کہ اس دور کا حساس ذہن فطرت کے اس جبر کے خلاف اور اختیار کے حق میں لکھ رہا تھا جیسے کہ دستووسکی کے ہاں ملتا ہے ) ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایٹم کو جب توڑ کر اس میں نئے ذرات سامنے آنے لگے تو اس نے اس دور کے پورے علمی منطقے (Episteme) کو ہی ہلا کر رکھ ڈالا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا دھچکا جو کہ شاید پوری انسانی تاریخ کے تصورات کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی تھا، وہ بولٹزمین ہی کی طرف سے سامنے آیا۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا مزید پیچھے جانا ہو گا۔

یہ انیسویں صدی کا آغاز تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کہ یورپ میں 1789ء کا فرانس کا انقلاب برپا ہونے کے بعد جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری تھی۔ نپولین کی فوج نے دنیا کا نقشہ بدلنا شروع کر رکھا تھا۔ اسی فوج کا ایک سپاہی پیرس کا باسی سادی کارنٹ (Sadi Carnot) بھی تھا۔ نپولین کی شکست 1815ء کے بعد فرانسیسی فوج کے سپاہیوں کی اکثریت کو مختلف اڈوں پر ادلا بدلی میں مصروف کیا ہوا تھا۔ سادی کارنوٹ بھی انہی دنوں اپنے کچھ سائنسدان دوستوں کے ساتھ فزکس اور کیمسٹری کے لیکچر سنتا اور بھاپ والے انجنوں پر تحقیق میں مصروف ہو گیا۔

ان دونوں انجن کی کارکردگی بنانے پر بہت کام ہو رہا تھا۔ کارنوٹ نے بھی اس سلسلے میں اپنی مشہور زمانہ کتاب ”آتشی قوت حرکت پر افکار“ لکھی جو کہ 1824ء میں پیرس سے شائع ہوئی (پاپولر سائنس پر لکھی جانے والی کتابوں میں شاید یہ پہلی کتاب ہے کہ جس میں بنا مساواتوں کے عام لوگوں کی زبان میں سائنس پر لکھا گیا) ۔ اس کتاب میں اس نے اس دور تک دریافت ہونے والے انجنوں پر بحث کی۔ اس دور میں انجینئر اور ماہر تکنیک کار اگرچہ انجن دریافت تو کر چکے تھے لیکن چونکہ ابھی تک کوئی تھیوری ایسی سامنے نہ آ سکی تھی کہ جس کی بنیاد پر انجن کو مزید بہتر کرنا آسان ہو سکے۔ یہ کارنامہ کارنٹ نے انجام دیا۔

اس نے ایک ایسے مثالی انجن (Heat Engine) کا تصور دیا جس میں صرف تین اجزاء ہوں گے اور انہی سے کسی بھی انجن کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ تین اجزاء حرارت کا ماخذ (جیسے آگ ) ، کام کرنے والا مادہ (جیسے بھاپ) اور زائد حرارت کو خارج کرنے والا ماحول (جیسے فضاء) ہے۔ اس کے اس مثالی انجن کی کارکردگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت ہے یعنی ماخذ کا درجہ حرارت اور فضاء کا درجہ حرارت۔ یہیں سے اس نے اپنا مشہور زمانہ تھیورم پیش کیا کہ ایک جیسے درجہ حرارت پر کوئی بھی انجن کارنٹ کے انجن سے زیادہ کارکردگی نہیں رکھ سکتا۔ کارنٹ کا مثالی انجن ہی سب سے زیادہ کارگر انجن ہے۔ یہی تھیورم بعد میں ”حرکت کے دوسرے قانون“ Second law of thermodynamics کی بنیاد بنا۔

کارنٹ کے نظریے کی بنیاد ”کیلوری“ نام کے ایک ایسے سیال مادے پر تھی جسے ایتھر کی مانند بے کمیت، مخفی اور نہ ختم ہونے والا سمجھا گیا تھا کہ جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے اور اگر اس مادے میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو اس کا بہاؤ حرارت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دوسری اہم بنیاد جو کارنٹ کے نظریے میں کارفرما تھی وہ یہ تھی کہ میکانکی کائنات میں خودکار مشین (perpetual motion machine) نہیں بنائی جا سکتی۔ کیونکہ ایک خودکار مشین کی مدد سے ہم ہمیشہ کام لے سکتے ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکے گی۔

یہ ایک طرح سے توانائی کے حصول کا لامتناہی سلسلہ ہو گا جو کہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ کائنات کی توانائی محدود ہے۔ لہذا کارنٹ کے تھیورم میں بھی ایسا انجن بنانا ممکن نہیں ہے جس سے لامتناہی کام لیا جا سکے۔ اگرچہ دوسری بات یعنی خودکار مشین کا ناممکن ہونا تو میکانیات کے اصولوں سے ثابت اور سند شدہ تھا، لیکن جو پہلا قضیہ کارنٹ نے باندھا کہ کیلوری کی مقدار فنا نہیں ہو سکتی، اس پر کافی اعتراض اٹھے اور ان میں سے اکثر بعد میں درست بھی تھے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).