عمران خان اور ہٹلر میں مماثلت


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور جرمنی کے فاشسٹ حکمران ہٹلر کچھ باتوں میں خاصی مماثلت رکھتے ہے۔ ایڈولف ہٹلر کے والد کا نام الاؤس ہٹلر تھا، وہ محکمہ کسٹمز میں افسر تھا اور اسے بھی رشوت اور بدعنوانیوں کی پاداش میں نوکری سے برخاست کیا گیا، عمران خان کے والد اکرام اللہ خان بھی سرکاری افسر تھے اور انہیں بھی رشوت خوری اور بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت نوکری سے نکالا گیا۔ پھر ہٹلر کی والدہ جو اس سے بہت پیار کرتی تھی اس بیچاری کو کینسر ہو گیا اور وہ اس موذی بیماری کی وجہ سے دنیا چھوڑ گئی وہ آخر تک اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہی مگر وہ اپنی عزیز از جان والدہ کی آخری رسومات میں بھی نہیں آیا نہ ہی اس کا آخری دیدار کیا، ہمارے کپتان کی والدہ ماجدہ بھی کینسر جیسے خطرناک مرض سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئیں اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے، مرحومہ اپنے اکلوتے بیٹے کو بے حد پیار کرتی تھی اس کے آنے کے راہ دیکھتے وہ بھی چل بسیں کپتان کو بھی اپنی والدہ کو لحد میں اتارنے کی سعادت نصیب ہوئی نہ ہی ان کا آخری دیدار۔

ایڈولف ہٹلر حد درجے ضدی، خودسر اور متکبر تھا، ہارنا اسے قبول نہیں تھا، کسی بھی قیمت پہ جبکہ ہمارے خان نے بھی کچھ ایسی ہی طبیعت پائی ہے، تکبر ہر وقت ناک پہ رہتا ہے، خودسری سر چڑھ کر بولتی ہے ضد میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، شکست سے نفرت ہے، حالانکہ کرکٹ میں جب ورلڈ کپ جیتا تھا تو آدھے سے زیادہ میچز ہار گئے تھے یہ تو انگلینڈ کے خلاف قسمت کی دیوی ان پہ مہرباں اور پاکستان کی سیاست سے ناراض تھی جو ہارا ہوا میچ بارش کی وجہ سے برابر ہو گیا اور خان صاحب آج اسی ورلڈ کپ کی کامیابی کا خراج قوم سے وصول کر رہے ہیں۔

ہٹلر اور خان صاحب میں ایک اور خاصیت بھی خاصی ملتی ہے کہ دونوں نے جھوٹ دروغ گوئی میں پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا، ہٹلر کا مصاحب جوزف گوئبلز اکیلا کافی تھا جو اپنے باس کی خواہش کے مطابق ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ماہر تھا مگر وقت اور حالات کے حساب سے خان صاحب نے درجن بھر جوزف گوئبلز پالے ہوئے ہیں جو ان کی خوشنودی کے لیے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔

ہٹلر نے بھی اقتدار سے پہلے ہرے بھرے خوشحال جرمنی کو دوسری عالمی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا تو عمران خان صاحب نے اچھے بھلے ترقی کرتے پاکستان کو معاشی، سیاسی اخلاقی بدحالی کی بھٹی میں جھونک دیا۔ جب ہٹلر کی فسطائیت کے آخری ایام آئے تو اس کے مصاحبین بھی اسے سب ٹھیک ہے، ہم فتح کے قریب ہیں، ہم مخالفین کو شکست دے دیں گے، مخالفین منتشر ہیں، اتحادی ساتھ کھڑے ہیں جیسی رپورٹ دے کر بہلاتے تھے اور آج وہی کچھ عمران خان صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے۔

فواد چودھری کہتا ہے کہ خان صاحب آپ فکر نہ کریں ہم دس لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع کریں گے پھر دیکھتے ہیں کون آپ کے خلاف ووٹ دینے ان کے درمیان سے نکل کر جاتا ہے ، تو شہباز گل کہتا ہے کہ خان صاحب آپ تو عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنا چکے، ہمارے اتحادی ساتھ کھڑے ہیں، فیصل واوڈا کہتا ہے کہ 172 کیا 182 ووٹ بھی خان صاحب کے خلاف پڑ جائیں خان صاحب کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔

دنیا کے ان دونوں بڑے فاشسٹ حکمرانوں نے اپنی اپنی قوموں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا، ایک نے جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا تو دوسرا اپنی قوم کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونکنے کے درپے ہے۔ ہٹلر کو زعم تھا کہ وہ عقل کل ہے، وہ مختار کل ہے، اس کا کوئی ثانی کوئی نعم البدل نہیں ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اسے کسی کی پرواہ نہیں۔ یہی غلط فہمی ہمارے کپتان کو بھی لاحق ہے، کہ وہ طاقت اور اختیار کا منبع ہے، وہ عقل و دانش کی درس گاہ ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے آلو ٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے نہیں، قوم بنانے کے لیے بھیجا ہے، ہر کسی کو اس سے زیادہ کوئی نہیں پہچانتا، اللہ تعالیٰ نے اسے خاص مقصد کے لیے اتارا ہے۔

ہٹلر کی جماعت بھی 1920 سے لے کر 1933 تک یعنی 13 سال تک ایک ایسی جماعت تھی جس کی رکنیت چند سو کے قریب تھی اور پھر 1933 کے بعد اچانک 85 لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی، اسی طرح خان صاحب کی جماعت بھی 1996 سے لے کر 2011 تک سیکڑوں ممبران پہ مشتمل تھی اور پھر پاشا کی بھاشا اور پاشا کی آشیرباد سے اچانک لاکھوں میں پہنچ گئی اور آج اقتدار میں ہے۔ ہٹلر بھی اپنی قوم کے لیے ایک وسل بلوئر بن کر آیا تھا اور آخر میں ڈیسٹرائر کا روپ اختیار کر گیا جبکہ خان صاحب بھی مسیحا بن کر آیا اور اب پاکستانی انہیں اپنے اوپر عذاب الٰہی سمجھ کر جان چھڑانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ہٹلر ماضی تھا اور عمران خان حال ہے۔

دونوں حاکموں کی مماثلت اپنی جگہ مگر ہٹلر کے بعد جرمنی نے ترقی کی اور آج جرمنی ایک عظیم قوم ہے جبکہ پاکستان سر تا پا کھربوں ڈالر کے قرضوں میں ڈوبا ایک ڈیپ اسٹیٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس مسیحا نے پاکستان کو پلک جھپکتے میں آسمان کی بلندیوں پر پہچانا تھا اس مسیحا نے پاکستان کو پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے اور ملک و قوم کا وہ حال کیا ہے کہ اس دلدل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں سوجھ رہا۔

ہٹلر نے فسطائیت کا فلسفہ اپنایا، اس کو پاکستان میں کوئی فوجی آمر تو دوام نہیں بخش سکا مگر ایک سیاسی جماعت کا سربراہ یہ کریڈٹ لے گیا۔ ہٹلر کی موت 1945 میں پراسرار حالات میں ہوئی جبکہ پاکستان میں ہٹلر کے ہم خیال عمران خان کو اللہ تعالیٰ زندگی دے مگر ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ انہیں ملک کی عوام کی تکالیف کا احساس بھی عطا کرے اور وہ یہ جان لیں کہ پاکستان کے عوام اب ان سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ لہٰذا بغیر کوئی مہم جوئی کیے وہ تحریک عدم اعتماد کا آئینی جمہوری طریقے سے سامنا کریں کامیاب ہوجائیں تو سو بسم اللہ ناکام ہوجائیں تو اسے عوام کی خواہش اور اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر اقتدار آنے والوں کے حوالے کر کے اگلے انتخابات کی تیاری کریں اور دنیا کو دوسرے ہٹلر کی مثال دینے کا جواز فراہم کرنے سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments