سیاہ کاری: ایک رسم، ایک دھوکہ


2006 ء میں مجھ ناچیز کو بھی بلوچستان کے ایک خوبصورت ڈسٹرکٹ آواران میں کام کرنے کا موقع ملا۔ آواران میرے لیے ایک ایسا علاقہ تھا جہاں میرے اپنے علاقے لیاری کے نسبت بہت زیادہ پسماندگی تھی۔ تعلیم کی بے حد کمی، صحت کے بے شمار مسائل، پانی کی عدم دستیابی، صنفی نا برابری، شدید غربت، زچگی کے دوران بے شمار اموات، ناہموار سڑکیں، ناقص سیوریج سسٹم، یہ سب وہاں کے عام مسائل تھے۔ اس دوران بلوچستان سے صرف ایک ہی تنظیم وہاں کام کر رہی تھی جس نے ہمیں بھی یہ موقع فراہم کیا اور ہم بھی آواران کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہاں کے خوبصورت لوگوں کے ساتھ کسی حد تک واقفیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

ویسے تو میں نے بچپن سے اپنے علاقے میں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن کبھی وہاں غیرت کے نام پر قتل جیسا مسئلہ یا موضوع سامنے سے نہیں گزرا۔ آواران میں بھی چونکہ بلوچ قبائلی آبادی رہتی ہے جو اپنے نظریہ فکر کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے بلکہ اب تک کرتے آرہے ہیں۔ کراچی کے بلوچوں کے نسبت وہاں کے رسومات، زبان، رہائش ہر چیز میرے لیے بالکل نئے تھے۔ لہٰذا وہاں پر میرے لیے بلوچ رسومات سے آگاہی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ وہاں کی میٹھی شہد جیسی زبان کو بولنا میں اپنے بس کی بات نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ وہاں کی عورتوں کے پہناوے میں ایک خاص قسم کی خوبصورتی اور دلکشی نظر آتی۔

سہولیات تو نہ ہونے کے برابر، جس کی وجہ سے میں کافی شرمندگی کے احساس میں مبتلا ہو جاتی۔ لگتا کہ میرے علاقے میں ہمیں ہر چیز میسر ہے اور پھر بھی ہم شکوے شکایتوں سے باز نہیں آتے۔ جبکہ یہاں انسان اتنے مسائل میں رہتے ہوئے بھی ہر وقت خوشی کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔

خواتین کے باہر نکل کر پڑھنے اور کام کرنے پر بہت زیادہ اعتراضات اٹھائے جاتے تھے۔ ایک اچھے پوسٹ پر رہنے کے باوجود میں خود بھی وہاں male domenancy کا شکار رہی۔ میں نے تجزیہ کیا کہ مرد حضرات جو مجھ سے کم لیول پر ہیں وہ میرے لیڈرشپ سے ناخوش ہیں، اس لیے آئے دن میرے لیے مشکلات پیدا کرنے کے راستے تلاشتے رہتے ہیں۔ وہاں کام کے دوران لڑکیوں کے تعلیم کو لے کر میرے من میں بہت سارے سوال آتے تھے۔ لیکن آواران میرے لیے صرف تجربہ گاہ بن گیا، جہاں میں نے سیکھا زیادہ اور کام کم کیا۔

ہمیں وہاں کے علاقے اور علاقے والوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے بھی دو طرح کے خواتین کے ساتھ کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایک وہ جو کچھ حد تک پڑھی لکھی ہوتی تھیں (جن کی کم از کم تعلیم مڈل یا زیادہ سے زیادہ میٹرک ہوتی تھی) ، دوئم وہ عورتیں جو عام گھریلو خواتین ہوتی تھی، لیکن علاقے میں ان کی بات سنی جاتی ہو اور وہ باآسانی ہمیں علاقے کے لوگوں سے ملاقات کروا سکتے تھے۔ ان خواتین کا کردار اپنے اپنے کمیونٹی کے اندر کافی زیادہ با اثر نظر آتا تھا۔

ان کے ساتھ جا کر میں نہ صرف خود کو محفوظ بلکہ باہمت محسوس کرتی تھی۔ یہ اپنے کمیونٹی کے لوگوں اور ان کے مسائل کو سامنے لاتے ہوئے اس بات پر زور دیتے تھے کہ لوکل تنظیم لازمی ان کے مسائل کا حل تلاش کریں جو میری سوچ کو اور پروان چڑھاتی تھی۔ جبکہ وہ لڑکیاں جو کچھ حد تک پڑھی لکھیں تھیں کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کا بڑی اور گھریلو خواتین کے سامنے بات کرنا بہت مشکل نظر آتا تھا، البتہ جب ان کہ ساتھ آفس میں بیٹھ کے معلومات اکٹھا کرنے لگتے تو اکثر کم عم کی شادی اور شادی میں رضا مندی نہ ہونے کے مسئلے پر ان کا اعتراض اٹھتا۔ سوال پوچھنے پر کہ پھر شادی سے انکار کیوں نہیں کیا جاتا ہے ، وہ ایک خوفزدہ سا چہرہ بناتے ہوئے کہنے لگتی: ”نا باجی نا، ایسا کرنے پر تو مار دیے جائیں گے۔“

شاہد یہ وہی انکار یا اپنے پسند کا اظہار ہی ہے جس پر ایک انسان کا خون تک بہایا جاتا ہے۔ جسے میں آواران میں ایک سال کے دوران تو نہیں سمجھ پائی مگر بہت جلدی حالات اور قدرت نے مجھے بلوچستان کے ہی ایک اور ڈسٹرکٹ جعفر آباد کی سیر کے دوران واضح کر دیا۔ وہاں مجھے کہیں سارے کیسز کا سامنا کرنا پڑا جو غیرت کے نام پر قتل سے متعلق تھیں۔ یہ میرے لیے بالکل نئی باتیں تھیں جنہیں میں بطور بلوچ، اپنے رسومات کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

اسی دوران سندھ میں بھی میری آمدورفت بہت زیادہ رہی، جہاں میں نے کاروکاری کے الزام میں زندہ درگور کیے جانے والی خواتین کے قبرستان کا دورہ بھی کیا۔ شاہد اسی لیے جعفر آباد، نصیرآباد میں رہتے ہوئے میں نے کہیں بار اپنے تحقیق کے دوران یہ کوشش بھی کی کہ میں یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو سکوں کہ چونکہ وہاں کا رہنے والا بلوچ سندھ بارڈر پر رہتا ہے اس لیے وہ کاروکاری کو سیاہ کاری کا نام دے کر اس رسم کو اپنا بنا گئے ہیں۔ لیکن ایک عرصے بعد جب مختلف علاقوں میں ایسے واقعات سے آگہی ہوئی تو حقیقت کا پتہ چلا کہ یہ تو ہم سب کا مسئلہ ہے۔

غیرت کے نام پر قتل پاکستان بھر میں تواتر کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں، اگر ہم صرف بلوچستان کی بات کریں تو وہاں ان واقعات کی اکثریت میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتی۔ حال ہی میں 11 مارچ کو آواران میں ہونے والے واقعے کے بارے میں ہمیں اطلاع بھی وہاں کے مقامی بالخصوص طلبہ نے دی جس کی وجہ سے اس کیس کو نہ صرف میڈیا بلکہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن تک پہنچنے میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ ورنہ ہمارے اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں بھی ایک کیس مشترکہ نوعیت کا ہو چکا ہے۔ لیکن طلبہ کا خود خواتین تنظیموں سے رابطے، ٹویٹر کمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، منفی روایات کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کی شمولیت کی نشانی ہے۔

یہ واقعہ لباچ ڈنسر کے علاقے میں پیش آیا جو آواران ہیڈکوارٹر سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ڈنسر کی رہائشی لڑکی ماہ زیب نے رواں سال فروری کی چار تاریخ کو ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ کر ضلع کیچ کے علاقے ڈنڈار میں ایک علاقائی معتبر کے یہاں بلوچی رسم کے تحت باہوٹ یعنی پناہ لی تھی۔ جس میں ان کے نکاح کے رسم کو بھی ادا کیا گیا۔ ماہ زیب کے چچا خالد علاقائی معتبر کو لڑکے اور لڑکی کو نقصان نہ دینے کی یقین دہانی پر اپنے ہمراہ لے گئے۔ واپس لانے پر لڑکے کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا جس کے متعلق لڑکے نے قاضی کورٹ میں کیس داخل کروا دیا۔ کیس کی پیشی ہفتے کے روز تھی جبکہ اس سے قبل ہی جمعہ کو لڑکی کو اس کے چچا نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔

شور برپا کرنے پر ضلعی انتظامیہ فوری متحرک ہوئی اور قاتل کو بمع اسلحہ گرفتار کر لیا گیا، جو کہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ لیکن اب جب تک کہ قاتل کو سزا نہیں دی جاتی ہمارے ملک کے نظام کے اندر رہتے ہوئے اس بات پر یقین کہ ہاں وہ گرفتار ہو چکا ہے، صرف کہانی کا ایک جملہ لگتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل جیسے غیر اخلاقی رویہ کو جسے کاروکاری، سیاہ کاری، تور تورا اور جانے کس کس روایتی ناموں سے پاکستان بھر میں ہر قوم اور تہذیب نے اپنے اپنے طور پر اپنے رسومات کا ایک خاص حصہ بنا کر خود کو اس دھوکے میں رکھا ہوا ہے کہ اس کی بنیاد ان کے غیرت سے پڑتا ہے۔ ان کے مطابق یہ غیرت ان کے روایتی اقدار کا وہ حصہ ہوتا ہے جو کہ کسی کے قتل کرنے پر واپس آتا ہے۔ جو یقیناً ان کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، جو اتنی آسانی سے ختم تو نہیں ہو سکتا مگر ہاں اس کے لیے جنگ لڑنا مقصود ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ان غلط اقدار کے فروغ کے تسلسل کو توڑنے کے لیے ہمہ وقت جدوجہد کیا جائے۔ قبائلی اور نیم قبائلیت کے نظام کو جمہوری اور آئینی اقدامات کے تحت ڈالا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments