”میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا“


ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگرے دو انتہائی دل خراش واقعات رونما ہوئے جن کے بارے میں خیال کرنا بھی کسی حساس انسان کے لئے اذیت سے کم نہیں۔ ایک باپ نے اپنی نومولود بیٹی کا محض بیٹے کی خواہش میں بے دردی سے قتل کر دیا دوسری طرف ایک بیوی نے اپنے خاوند کے ناروا سلوک کے باعث خود کو موت کے گھاٹ اتار لیا۔ 7 دن کی اس نومولود کی تو آہ بھی نہیں نکلی ہو گی قدیم زمانے میں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ماڈرن زمانے میں گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے محض اتنی ہی ترقی کی ہے اس معاشرے نے۔

دوسری جانب شیشے پہ لکھے اس ماں کے الفاظ جو بظاہر تو لپ سٹک سے لکھے تھے مگر درحقیقت وہ اس نے اپنے لہو سے لکھے تھے اس ماڈرن معاشرے کے منہ پہ طمانچہ ہیں جہاں مرد بے باکی سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ عورت کو کون سے حقوق چاہئیں ہر طرح کے حقوق تو میسر ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج بھی عورت کو یہ کہہ کر گھر سے رخصت کیا جاتا ہے کہ اب تمھاری لاش ہی نکلے اس گھر سے اور وہ بے بس اس جملے پر من و عن عمل کرتی ہے جہاں تک برداشت ہو سکے اس قید خانہ میں گزارا کرتی ہے اور جب حد سے بڑھ جائے ذہنی کوفت تو موت کے سہارے خود کو آزاد کر لیتی ہے کیونکہ آج بھی اس پڑھے لکھے معاشرے میں طلاق کو عورت کے ماتھے پر داغ کی طرح سجا دیا جاتا ہے جو مرتے دم تک اس کی پہچان رہتا ہے اور اس کی اولاد کے لئے ایک طعنہ۔ اور اگر اولاد بھی آگے بیٹیاں ہوں تو ان کے نصیب پر ماں کی طلاق کسی آفت کی طرح پڑتی ہے اور ان کے مستقبل کو بھی گہنا دیتی ہے۔ یہ اسلامی معاشرہ آج تک عورت کو اس کے جائز شرعی حقوق دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔

عورت کا خود مختار ہونا بھی اس کے ذہنی سکون اور خاوند کی نظر میں اس کی وقعت کو نہیں بڑھا سکتا۔ ایک لیڈی انسپکٹر جو ہر روز نا جانے کتنے ایسے کیسز اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہو گی اس بات سے با خوبی واقف تھی کہ اس معاشرے میں اس کی اذیت کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہو گی اگلے جہاں کی عدالت میں ہی جا کے انصاف ملے گا اور یہاں اب اس کے لئے یہ اذیت سہنا نا قابل برداشت ہو چکا تھا اس لئے شاید خود کو خدا کے حوالے کر دیا۔

مگر اب بھی اس پر کچھ لوگ بحث کریں گے حرام موت مر گئی جہنم میں ہی جلے گی یعنی اگر وہ طلاق لیتی تو بد کردار اور گھر نا بسانے والی کہلاتی اور جب اس نے اذیت کی حد  گزر جانے کے بعد خود موت کو گلے لگا لیا تو وہ جہنمی۔ لیکن خدا کی عدالت میں ہر چیز کے پیچھے موجود حقائق اور وجوہات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔

”میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا“ اس ترقی یافتہ معاشرے کے لئے رک کر سوچنے کا مقام ہے کہ مرد بحیثیت انسان کتنا گر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments