وزیر اعظم صاحب! یہ فتوے بھی تاریخ کا حصہ ہیں


آج کل ایک بار پھر سیاسی افراتفری عروج پر ہے۔ ہر طرف یہی بحث ہو رہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد منظور ہو گی کہ نہیں ہو گی؟ نمبر پورے ہوں گے کہ نہیں ہوں گے؟ ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے کہ کچھ ارکان تطہیر قلب کی مختلف منازل طے کر کے اب اس قابل ہو گئے ہیں کہ صحیح اور غلط کی تمیز کر سکیں۔ اس لئے وہ اب اس پارٹی کے خلاف ووٹ دیں گے جس کے ٹکٹ پر انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی مختلف مقامات پر جلسے کر رہے ہیں اور یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ان کے نمبر پورے ہیں اور اگر خدانخواستہ عین وقت پر پورے نہ نکلے تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہو گا کہ ان کے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش کی گئی ہے۔ اپوزیشن بھی یہی یقین دلا رہی ہے کہ ہمارے نمبر پورے ہیں اور اگر پورے نہ ہوئے تو ہم ایک بار پھر لانگ مارچ پر نکل پڑیں گے۔ یہ ہماری قدیم سیاسی روایت ہے کہ جب بھی سیاسی مطلع ابر آلود ہو تو کوئی نہ کوئی مذہبی بحث چھیڑ نے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے، خواہ اس کا زیر بحث معاملات سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔

سوات میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب اپنے دور اقتدار کی برکات و فیوض گنوا رہے تھے۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے سننے والوں کو بلکہ پورے ملک کو یہ خوش خبری سنائی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کا دن منانے کی منظوری دی ہے۔ واضح رہے کہ یہ قرارداد پاکستان اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں شامل ممالک نے پیش کی تھی۔ اس کے متعلق محترم وزیر اعظم نے فرمایا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اور ایک ایسا ہی عظیم واقعہ 1973 میں ہوا تھا اور اتنے طویل عرصہ کے بعد اس اہم سنگ میل کی نوبت آئی ہے۔ عمران خان صاحب نے دوسری آئینی ترمیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا

”انہوں نے کہا تھا کہ قادیانی جو ہمارے نبی ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے، وہ مسلمان نہیں ہیں وہ اقلیت ہیں۔ یہ اس کے بعد یہ سب سے بڑا کام ہوا ہے مسلمان دنیا کے لئے کہ آج یونائیٹد نیشنز نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامو فوبیا کے خلاف دنیا کو آواز بلند کرنی چاہیے اور 15 مارچ ہر سال اسلاموفوبیا کا دن بنا دیا گیا ہے۔“

ان الفاظ کا مطلب واضح ہے کہ عمران خان صاحب کے نزدیک گزشتہ چالیس پچاس سال میں عالم اسلام میں دو اہم ترین کام ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور دوسرے یہ کہ اقوام متحدہ نے ایک دن کو اسلاموفوبیا کے دن کے طور پر منانے کی منظوری عطا کی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ تاریخی سہو قابل تصحیح ہے کہ دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ آئین اور قانون کی اغراض کے لئے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قدم 1973 میں نہیں بلکہ 1974 میں اٹھا یا گیا تھا۔

یہ معیار پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہر تاریخی واقعہ کو اس کے اثرات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ 1974 میں آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کوغیر مسلم قرار دیا گیا۔ اور یہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر کی گئی تھی۔ اور احمدیوں کے علاوہ تمام مسالک کے ارکان نے اس ترمیم کی تائید کی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اس ترمیم کو اپنے اہم کارناموں میں شمار کرتے تھے کہ ان کے دور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

بہر حال ضیاء صاحب کے مارشل لاء کے بعد بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد قصوری صاحب کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے انہیں سزائے موت سناتے ہوئے جو تفصیلی فیصلہ سنایا اس میں بھٹو صاحب کے بارے میں ”نام کا مسلمان“ کے الفاظ استعمال کیے۔ جب بھٹو صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو انہوں نے اس بات پر شدید احتجاج کیا کہ عدالت نے انہیں ”نام کا مسلمان“ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان الزامات کے مقابلہ پر پھانسی کو ترجیح دوں گا۔ اور کہا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور کلمہ پر یقین رکھتا ہو۔ [عدالت عظمی ٰ سے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب ص 30 تا 35 ]

بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک تو ایک واقعہ ہے۔ صرف اس کی بنا پر دوسری آئینی ترمیم کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ تمام فرقوں کے ممبران اسمبلی نے مل کر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ کیا اس کے بعد پاکستان میں ان مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد میں اضافہ ہوا یا اس کے بعد مختلف علماء نے ایک دوسرے کے خلاف اسی قسم کے فتاویٰ جاری کیے ۔ خالد احمد صاحب کا نام اس موضوع پر ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی کتاب سیکٹیرین وار میں یہ تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ دوسری آئینی ترمیم کے بعد شیعہ مسلمانوں کے خلاف کفر کے فتووں میں تیزی آ گئی۔ اور پاکستان میں ایک کے بعد دوسرا فتویٰ شائع کیا گیا جس میں شیعہ احباب پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ اور بات فتووں سے بڑھ کر قتل و غارت تک جا پہنچی۔ یہاں تک کہ شمالی علاقہ جات میں 1988 میں ایک لشکر نے شیعہ احباب پر اس وقت حملہ کر کے قتل و غارت کی جب وہ عید الفطر منا رہے تھے۔ [Sectarian War P 20 & 86]

اور بد نصیبی سے قتل و غارت کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اور یہ سلسلہ کس طرح رک سکتا تھا جبکہ پاکستان میں کھلم کھلا ایسا لٹریچر شائع کیا گیا جس میں شیعہ احباب کو واجب القتل قرار دیا گیا اور حکومت نے اسے روکنے کے لئے موثر اقدامات نہیں کیے ۔ مثال کے طور پر 2008 میں لشکر جھنگوی کی طرف سے ایک کتاب شائع کی گئی جس کا نام تھا ”شیعہ واجب القتل کیوں؟ المعروف بہ راہزن کا علاج“ ۔

کیا یہ فتوے صرف شیعہ احباب تک محدود رہے؟ سعودی عرب سے مالی مدد کے علاوہ فتوے درآمد کر کے شائع کرائے گئے جس میں پاکستان میں آباد مختلف فرقوں کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ جنوری 1999 میں اردو زبان میں سعودی عرب کے دارالافتاء کے فتوے ”فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب“ کے نام سے شائع کیے گئے۔ اس کی جلد دوئم میں اثنا عشری شیعہ احباب، اسماعیلی احباب اور بریلوی احباب پر کفر کے فتوے شائع کیے گئے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کس دھڑلے سے پاکستان کی اکثریت پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اسی طرح پاکستان میں بریلوی احباب کی طرف سے ان کے قائد احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتاب ”حسام الحرمین“ حواشی کے ساتھ بار بار شائع کی گئی۔ اس کتاب میں عرب ممالک کے علماء کے بہت سے فتوے شائع کیے گئے تھے، جن میں دیوبندی احباب پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔

کیا تکفیر کا یہ سلسلہ صرف اسی نہج پر چلا کہ ایک فرقہ کے علماء نے دوسرے فرقہ کے لوگوں کو کافر قرار دیا؟ بد قسمتی سے اس سلسلہ نے ایک اور رنگ اختیار کیا۔ آخر وہ دن بھی آیا جب اسلام آباد میں لال مسجد کے مدرسہ میں یہ فتویٰ آویزاں کیا گیا کہ پاکستان کے وہ فوجی جوان جو کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے دوران شہید ہو رہے ہیں، ان کی نمازجنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین جائز نہیں۔ یہ صلہ ان شہیدوں کو دیا جا رہا تھا جو اپنے ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ اور اس کے ساتھ حکومت پاکستان کی تکفیر کا فتویٰ بھی دیا گیا۔

یہ جوش پاکستان آرمی کے جوانوں پر ہی ختم نہیں ہوا۔ بلکہ تمام قومی ادارے اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ عمران خان صاحب نے یہ تقریر سوات میں فرمائی تھی۔ اور اسی علاقہ میں صوفی محمد صاحب نے بغاوت کر کے یہ فتویٰ دیا تھا کہ اسلام میں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ وہ جگہیں ہیں جہاں پر بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔ [Inside Al Qaeda and the Taliban by Syed Saleem Shehzad p 160 & 174 ]

پہلے پاکستان کی ریاست کی تکفیر کی گئی اور پھر اس بنا پر دہشت گردوں کو ابھارا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ اور اس کے نتیجہ میں ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں۔ ورنہ 1974 سے اب تک جو کفر کے فتوے جاری کیے گئے ہیں ان کا احاطہ کرنے کے لئے ایک انسائیکلو پیڈیا درکار ہو گا۔ عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میں دو اہم واقعات کا ذکر کیا تھا۔ لیکن ان دو اہم واقعات کے درمیان باہمی تکفیر کے نتیجہ میں جو پاکستان میں خون خرابہ ہوا ہے، اس کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اب تو فتووں کی کثرت سے وطن عزیز میں یہ حالت ہو چکی ہے کہ غالب کا یہ مصرع صادق آتا ہے

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments