سیاسی لوگوں کی دنیا


‏سیاسی لوگوں کا کریئر دنیا کا مشکل ترین پیشہ ہے بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں جہاں 62 فیصد لوگ دیہات میں آباد ہیں۔ جہاں مقامی روایات کے باعث ووٹر کا مطالبہ ہوتا ہے کہ اس کا سیاسی لیڈر اس کی ہر خوشی غمی میں شریک ہو۔ اسے جب بھی کسی محکمے سے کوئی کام پڑے وہ دستیاب ہو۔ وقت بے وقت ان کا فون بھی اٹھائے۔ جب رکن اسمبلی یا سیاسی شخص صبح اٹھتا ہے تو اس کے ڈیرے پر دو، تین سو بندہ موجود ہوتا ہے جس کو چائے پانی پلانا، ناشتہ دینا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی نوکری کی سفارش، کوئی ڈی سی، ڈی پی او، پٹواری سے کام، کوئی صلح، پنچایت کے مسئلے، علاقائی ترقی کے منصوبے وغیرہ، ہر ایک کی اپنی ڈیمانڈ ہوتی ہے اور وہ بڑی آس سے آتے ہیں۔ کسی کا لاہور یا اسلام آباد سیکرٹریٹ کا کام ہوتا ہے وہ پرچیاں لکھوا دیتے ہیں کہ جب آپ نے وہاں جانا ہے تو میرا یہ کام کرنا ہے۔ اس کے بعد وہ نکلتا ہے حلقے میں ہونے والی شادیوں میں شمولیت کے لئے، کہیں پانچ کہیں دس منٹ رکتا ہوا، کسی جنازے میں شرکت، کہیں فاتحہ اور کہیں ختم، کہیں مہمان خصوصی تو کہیں کسی مریض کی خبر گیری۔ ان سب میں اس کی اپنی ذاتی زندگی، فیملی لائف اور سوشل لائف بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس سے ہر شخص کو توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔
یہ صرف ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو ان لوگوں کے کام کروانے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہ الگ داستان ہے۔ بیوروکریسی کے چکر، سسٹم کی سست روی، قانونی موشگافیاں، سرخ فیتے کے مسائل، جوڈیشل ایکٹوازم، میڈیا کا دباؤ، بلیک میلنگ، پارٹی قیادت کی منتیں، سیکرٹریز کے نخرے وغیرہ وغیرہ۔ ‏پھر عوامی تاثر کا خیال رکھنا، نیب کی انکوائری، ایف آئی اے میں پیشی، اینٹی کرپشن کے نوٹس، میڈیا ٹرائل اور سوشل میڈیا کی تنقید بھگتنا۔ مختصراً ایک باریک رسی ہر چل رہا یہ شخص نجانے کتنے پاپڑ بیل کر اسمبلی تک پہنچتا ہے، بعض اوقات دو دو تین تین دفعہ الیکشن لڑ کر بھی ہار جاتا ہے مگر اسی لگن سے لگا رہتا ہے۔
اب آتے ہیں موجودہ منحرف اراکین اسمبلی کی طرف، آپ کا کیا خیال ہے وہ کیوں منحرف ہوئے ہیں؟ اگر آپ حکومتی وزراء کے بیانیے کو فالو کرتے ہیں کہ انہوں نے پیسے لیے ہیں تو اسے سوائے بے وقوفی کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ کسی بھی الیکٹ ایبل کے لئے سب سے اہم اس کی سیٹ اور اس کا حلقہ انتخاب ہوتا ہے۔ وہ پبلک پرسیپشن کا پابند ہوتا ہے اور اس کا عوام سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ لوگوں کی نبض پر اس کا ہاتھ ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹر کا رجحان کس جماعت اور کس لیڈر کی طرف ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف محض اس لیے جوائن کی تھی کہ وہ اسے ایک خواب کی تعبیر سمجھتے تھے، اس کے رومانس میں گرفتار تھے، دوسرا میڈیا، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سوشل میڈیا نے تحریک انصاف کے لئے سازگار حالات بنائے، پاپولزم یا مقبولیت کے بانس پر اس جماعت کا جھنڈا بلند کیا گیا، پوری ریاستی مشینری اس کے پیچھے کھڑی ہوئی۔ ان الیکٹ ایبلز کو بزور بازو بھی مجبور کیا گیا۔ ووٹرز کا بھی دباؤ تھا کہ چونکہ اگلی حکومت تحریک انصاف کی بنوائی جائے گی اس لیے آپ لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوں، کئی لوگوں کی فائلز بنا لی گئیں۔ غرض ہانکا لگا کر لوگوں کو تحریک انصاف میں بھیجا گیا۔ اب جب اس حکومت کی نالائقی، نااہلی اور کرپشن کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہو گیا اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی طوعاً و کرہاً نیازی حکومت سے برات کا اظہار کرنا پڑا تو ان الیکٹ ایبلز کو حلقے کی عوام کے دباؤ، اپنے سیاسی مستقبل اور پبلک پرسیپشن کے مطابق فیصلہ لینا پڑا۔
اس میں پیسے کا لین دین کہیں نہیں ہے۔ البتہ آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کے حوالے سے وعدہ وعید یا کمٹمنٹ ضرور شامل ہے۔ تحریک انصاف مقبول عام بیانیہ مرتب کرنے میں ماہر ہے اس نے یہ تاثر پھیلا دیا ہے کہ ان الیکٹ ایبلز اور اپوزیشن جماعتوں نے خرید و فروخت اور ہارس ٹریڈنگ کی ہے جو بالکل جھوٹ اور خلاف قرائن ہے۔ تحریک انصاف جس کی بنیاد جھوٹ، دھونس، دھاندلی اور پروپیگنڈے پر تھی، اپنی بری کارکردگی کے باعث اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔
کئی لاکھ لوگوں کا خواب اور رومانس ٹوٹا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ایک پتلی تماشا تھا جس کے ڈائریکٹرز کو توقع تھی کہ ڈرامہ لمبے عرصہ چلے گا مگر کردار بے جان، کہانی بھونڈی اور زمینی حقائق سے مطابقت نہین رکھتی تھی، سو یہ فلم پٹ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments