یہ کھیل ہے کیا؟

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ہمارے بچپن میں ایک کھیل کھیلا جاتا تھا، جس میں ایک فرد بندر بنتا تھا اور ایک ‘کلی’ یعنی چوبی میخ گاڑ کے اس سے ڈوری باندھ کے باقی کھیلنے والوں کے جوتے اس ڈوری کے اندر رکھ لیتا تھا۔ اب بندر کی کوشش ہوتی تھی کہ جوتوں کو اپنی جگہ سے کھسکنے نہ دے لیکن کھیلنے والے اپنے جوتے لے کر بھاگنے کی فکر میں رہتے تھے۔ اس کھیل کا انجام کیا ہوتا تھا میں کبھی نہ دیکھ پائی۔

سیاست کو اکثر شطرنج سے تشبیہ دی جاتی ہے تو آج کل اس بازی میں دے دھڑا دھڑ فیل پیادے مارے جا رہے ہیں۔ کئی پیادے فیل اور گھوڑے بن چکے ہیں اور کئی گھوڑے، گھگھو گھوڑے۔

حالیہ دور میں کرکٹ کی اصطلاحیں بھی سیاست میں جگہ جگہ برپا چکی ہیں، ایمپائر کی انگلی، وکٹ اڑنا، نیوٹرل ایمپائر وغیرہ وغیرہ۔ سیاست کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں بظاہر امریکی مفاد کچھ خاص رہا نہیں، روس، چین کی دوستی سے پہلے ایک آزاد دنگل جاری ہے۔

ایسا ہی ایک دنگل روس کے افغانستان میں داخل ہونے سے کچھ برس قبل بھی اس ملک میں برپا ہوا تھا۔ اس قسم کے دنگل جن میں سیاستدان یا تو آزاد ہوتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے اندر کی دھڑے بندیوں پہ چل رہے ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا کرتے ہیں۔

لیکن سیاست نہ کسی کا بھلا دیکھتی ہے نہ برا ،یہ ایک منھ زور دریا کی طرح اپنی رفتار سے بہے جاتی ہے۔

عدم اعتماد ایوان میں آنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کا بے شمار نقصان کر گئی۔ حکومتی وزرا کی بوکھلاہٹ، وزیر داخلہ کا لہجہ اور اپوزیشن کا بتایا ہوا دو سو بیس کا عدد ، کسی قدیم منتر کی طرح سب عناصر پورے ہو چکے ہیں بس ‘چھو’ کرنے کی دیر ہے۔

پی ٹی آئی گزرے انتخابات میں جن ‘خاکی انڈوں’ سے ٹوکری بھر رہی تھی وہ اپوزیشن کے ٹوکرے تلے چلے گئے تو اچنبھا کیسا؟

وہ تمام ایم این اے جو آج ‘ضمیر کی آواز’ سن رہے ہیں پہلے بھی بارہا اسی آواز پہ کان دھر چکے ہیں بلکہ کئی غیر منحرف اراکین بھی اس آواز کو بخوبی سننے کی قدرت رکھتے ہیں۔

اب سوشل میڈیا پہ اخلاقیات کے جو بھاشن دیے جا رہے ہیں وہ سب بےکار ہیں۔ اخلاقیات کو اٹھا کے طاق پہ دھرتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہ سوچنے والے ایسی باتیں کرتے بہت عجیب لگتے ہیں۔

سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں اخلاقیات کے ہر سبق کو بھلا کے چلنے والے وقتی طور پہ تو بہت کامیاب رہتے ہیں لیکن ان بد اخلاقیوں کے اثرات قومیں اور خطے صدیوں تک بھگتتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کی پالیسیوں نے ہی تقسیم ہند کی بنیاد رکھ دی تھی اور چرچل کی کرنیوں کا زہر سنہ 71 تک موجود تھا۔

خاکی انڈوں کا ٹوکرا اٹھا کر بنائی گئی حکومتیں اسی طرح بات بے بات ہل کر رہ جاتی ہیں۔ حکومت کا جانا نہ جانا ایک طرف لیکن سیاست کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی شکل بتا رہی ہے کہ فی الحال ایمپائر، نیوٹرل ہے اور جو کھیل چل رہا ہے شاید اسے ہی سیاست کہتے ہیں۔

او آئی سی، عدم اعتماد کا معاملہ اور مائنس ون فارمولا 48 گھنٹے کا کھیل لگتا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو برے انجام کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

اس ڈیڈ لاک یا پھر آنے والے دنوں میں پارلیمان میں دھرنا اور ڈی چوک میں متوقع پاور شو، ایسے حالات میں جب اناڑی پن سے کھیل خراب ہو چکا ہوتا ہے تب ایمپائر کی انگلی اٹھتی ہے اور کھیل کا رخ پلٹ جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کھیل جو آج ہماری ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پہ چل رہا ہے اصل میں ہے کیا؟ شطرنج، کرکٹ یا پھر بندر کلا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments