اورنگزیب سے جارج واشنگٹن تک (مکمل کالم)


کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں دو چار سو سال پہلے کے زمانے میں کسی مغل شہنشاہ کے گھر پیدا ہوتا تو زندگی کیسی ہوتی۔ شاید ایک وسیع و عریض سلطنت میرے تصرف میں ہوتی جہاں صرف میرا ہی حکم چلتا۔ مگر جب مغل بادشاہوں کی تاریخ پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور اپنی اس فینٹسی سے توبہ کر لیتا ہوں۔ مثلاً مغل شہنشاہ جہانگیر نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ شہریار خان، اس کا سب سے چھوٹا بیٹا، اس کا وارث ہو گا۔ بادشاہوں کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کے حکم کی اسی طرح تعمیل کی جائے گی جیسے ان کی زندگی میں کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔
نور جہاں کی بھی یہی خواہش تھی کہ شہریار بادشاہ بنے مگر قسمت اس وقت شاہ جہاں کے ساتھ تھی، شاہ جہاں نے اپنے اس بھائی کو لاہور میں گلا گھونٹ کر مروا دیا، جہانگیر کے باقی پوتوں کو بھی قتل کروا ڈالا اور نور جہاں کو قید کر کے ہندوستان کا تاج سر پر سجا لیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ 1657 میں جب شاہ جہاں کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو دارا شکوہ نے تخت پر براجمان ہونا چاہا مگر اسے شاید اندازہ نہیں تھا اس کے بھائی مراد، شجاع اور اورنگزیب بھی بادشاہت کے امیدوار ہیں۔ اورنگزیب نے نہایت چالاکی سے اپنے پتے کھیلے اور یہ ظاہر کیا کہ اسے اقتدار کا لالچ نہیں، شجاع نے یہ بھانپ لیا کہ اورنگزیب کے آگے اس کی دال نہیں گلے گی چنانچہ وہ فرار ہو گیا، دارا شکوہ اور مراد کو اورنگزیب نے قتل کروا دیا اور والد ماجد شاہ جہاں کو قید کر دیا۔ دارا شکوہ کا سر کاٹ کر جب اورنگزیب کے سامنے رکھا گیا تو اس نے اپنی موجودگی میں بھائی کا سر دھلوایا تاکہ تسلی کرسکے کہ یہ دارا شکوہ ہی ہے اور پھر اپنے فلسفی بھائی کی موت پر آنسو بھی بہائے۔
لیکن یہ سب گزرے وقت کی باتیں ہیں جب اقتدار کی منتقلی کا کوئی طریقہ وضع نہیں ہوا تھا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ اپنی زندگی میں ہی جانشین مقرر کر کے تخت اس کے حوالے کر دیتے تھے اور اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتا تو پھر تخت کے امیدواروں میں جنگ ہوتی اور جو شخص اپنے بھائیوں کو قتل کر کے جنگ جیت جاتا وہ تخت نشین ہوجاتا۔ آج کل کی بادشاہت میں اقتدار کی منتقلی کا ایک ’پر امن‘ ماڈل سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں رائج ہے جس میں بادشاہ کی وفات کی صورت میں یہ پہلے سے طے ہوتا ہے کہ اقتدار کس بھائی یا بیٹے کے پاس جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس ماڈل میں عوام کی نمائندگی نہیں کیونکہ کسی بھی صورت میں تخت کا وارث شاہی خاندان سے باہر نہیں ہو سکتا۔
جمہوریت کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نظام میں (لولے لنگڑے ہی سہی ) مگر عوام اقتدار میں شریک ضرور ہوتے ہیں اور اس میں اقتدار کی منتقلی کا واضح طریقہ کار بھی موجود ہے۔ لیکن جمہوریت صرف لکھے ہوئے آئین یا اس میں درج طریقہ کار سے نہیں چلتی بلکہ اس کی کامیابی کے لیے معاشرہ کچھ اصول طے کرتا ہے، اگر یہ اصول سرے سے طے ہی نہ کیا جائیں یا بے شرمی سے ان کی خلاف ورزی کی جائے تو پھر امریکہ جیسے ملک میں بھی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
کسی بھی ملک میں پارلیمان، مقننہ یا عدلیہ کے ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ملک جمہوری بھی ہے، یہ سب ادارے استبدادی ریاستوں میں بھی ہوتے ہیں۔ دارا شکوہ کو قتل کرنے سے پہلے اورنگزیب نے اس پر ایک جھوٹا مقدمہ بنوا کر کنگرو کورٹ سے اس کا ٹرائل بھی کروایا تھا۔ چنانچہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ پہلے چند بنیادی اصول طے کر لے۔ یہ بنیادی اصول کیا ہیں؟
’How Democracies Die‘ میں سٹیون لیوٹسکی اور ڈینئل زبلٹ لکھتے ہیں کہ جب کسی ملک میں جمہوری نظام خطرے سے دوچار ہوتا ہے تو پہلے اس کی نشانیاں نظر آنا شروع ہوتی ہیں، جب یہ نشانیاں نظر آئیں تو سمجھ جائیں کہ جمہوریت کسی طالع آزما لیڈر کے ہتھے چڑھنے والی ہے۔ پہلی نشانی یہ ہے کہ کوئی ’ڈیما گوگ‘ جمہوری اصولوں کی نفی کرتے ہوئے کہے کہ الیکشن پر اعتبار نہیں اور نظام بدلنے کے لیے آئین کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ کوئی سیاست دان جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے مخالف کی ساکھ تباہ کرنے کی کوشش کرے اور کہے کہ وہ ریاست کا دشمن ہے، اسے جیل میں ہونا چاہیے، وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے، وغیرہ۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ وہ لوگوں میں عدم برداشت پیدا کرے، انہیں تشدد پر اکسائے یا ایسے گروہوں کے ساتھ تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے جو تشدد میں یقین رکھتے ہوں۔ اور چوتھی نشانی یہ ہے کہ وہ ملک میں شہریوں کے حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش کرے اور آزاد صحافت کو پابند کرے۔
ان دونوں لکھاریوں کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام میں جب خطرے کی یہ نشانیاں نظر آئیں تو پھر جمہوریت کے محافظوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ جمہوری نظام کی محافظ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جن کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کسی قسم کی انتہا پسندی کو قبول نہیں کیا جائے گا جیسے کہ 1933 میں سویڈن کی قدامت پسند جماعت نے کیا تھا، اس جماعت نے اپنے پچیس ہزار ارکان کی رکنیت اس بنا پر ختم کردی تھی کہ وہ فاشسٹ رجحان رکھتے تھے، جماعت کے ووٹ بنک کو اس سے نقصان ہوا مگر جمہوریت کا بھلا ہو گیا۔
اسی دور میں جرمن قوم نے بالکل الٹ کام کیا اور ہٹلر کی اندھا دھند حمایت کی، نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ جمہوریت کے تحفظ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ طے کر لیں کہ ان کے مد قابل سیاست دان بھی انہی کی طرح اقتدار کے جائز امیدوار ہیں اور وہ مجرم، غدار یا ملک دشمن نہیں۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور لیڈران کوئی ایسا کام نہ کریں جو جمہوری اصولوں کی نفی کرتا ہو چاہے وہ کام تکنیکی اعتبار سے خلاف آئین اور قانون نہ ہو۔ جب جارج واشنگٹن امریکہ کا صدر تھا تو اس وقت آئین میں دو سے زائد مرتبہ انتخاب لڑنے پر کوئی پابندی نہیں تھی مگر اس نے تیسری مرتبہ صدر بننا گوارا نہیں کیا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں ان لوگوں کو وفا کی ترغیب دے رہا ہوں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس قسم کے ان کہے اصولوں پر عمل کرنا فی الحال ناممکن ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہماری جماعتیں عوامی مقبولیت بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں چاہے وہ کسی انتہا پسند تنظیم کی پذیرائی ہو، مذہب کارڈ کا استعمال ہو، مخالفین کی کردار کشی ہو یا مہا حب الوطنی ہو۔ جمہوریت کی روح پر عمل کرنا تو دور کی بات فی الحال تو ہم لکھے ہوئے آئین پر عمل کرنے کے مرحلے تک نہیں پہنچے۔
امریکہ اور یورپ کی مثالیں دینا آسان ہے کہ انہوں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے اصول وضع کر رکھے ہیں مگر سب سے بنیادی اصول جو انہوں نے طے کر رکھا ہے وہ آئین پر عمل درآمد کاہے۔ ہمارے ہاں بھی وہ رولز آف گیم طے ہوسکتے ہیں /ہونے چاہئیں مگر اس سے بھی پہلے آئین کی پاسداری کے بنیادی اصول کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم آئین پر عمل کرنے سے تو گریز کریں اور جمہوریت کی روح کی آڑ میں اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کریں۔
اور رہی بات آئین کو تسلیم کرنے کی تو یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے بچے پہلی سے لے کر سولہویں جماعت تک یہ سبق نہ رٹ لیں کہ اس ملک میں آئین ایک مقدس دستاویز ہے اور اس سے روگردانی ریاست کا سب سے بڑا جرم۔ کیا ہمارے نصاب میں بچوں کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو سمجھ لیں کہ ابھی ہم جمہوریت کی روح تو کیا اس کے جسم کا تحفظ کرنے کے قابل بھی نہیں ہوئے۔ اورنگزیب سے جارج واشنگٹن کے دور تک کا سفر ہنوز جاری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments