پاکستانیوں کی ایک اور نسل ناکام!


انتظار حسین فرانسیسی فوج کے خلاف الجزائر یوں کی رومانوی جد و جہد اور اس کے نتیجے میں ملنے والی آزادی کے بعد خود اپنوں پر اپنوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کا بیان یوں سمیٹتے ہیں، ’پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کو بھی کب پتا ہو گا کہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ خواب کی تعبیر الٹی ہو جائے گی۔ وہ لوگ اچھے رہتے ہیں جو خواب کی تعبیر کی چکاچوند میں دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ جو خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ الحمدللہ پورا ہو گیا۔ اذیت ان کے حصے میں آتی ہے جو تعبیر کو الٹتے ہوئے دیکھنے کے لئے زندہ رہتے ہیں‘ ۔

’جناح آف پاکستان‘ میں سٹینلے ولپرٹ لکھتے ہیں کہ ’چند ہی مہینوں میں قائداعظم پنجاب کے جاگیردار وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سے مایوس ہو گئے۔ نا اہلی اور اقربا پروری کی تصدیق خود گورنر پنجاب نے کی تو گورنر جنرل نے افتخار حسین ممدوٹ کی جگہ ممتاز دولتانہ کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔ نامزد وزیراعلیٰ نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ کچھ ماہ بعد زیارت میں بستر پر پڑے نحیف و نزار شخص نے بہن سے کہا، ‘ فاطی، میں اب مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا ’۔ خوش قسمت تھے جو آزردہ خاطر ہی جئے، مگر خواب ٹوٹنے سے پہلے جنہوں نے آنکھیں موند لیں۔ قیام کے چند سالوں کے اندر اندر، ملک اب نوابوں، سرداروں، وڈیروں اور خوانین کے ہاتھ میں تھا۔

لیری کا لنز اور ڈومینک لیپیئر ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ کے اختتامی صفحات میں لکھتے ہیں، ’1958 ء کی فوجی بغاوت نے بدعنوان اور نا اہل سویلین دور حکمرانی کا خاتمہ کر دیا‘ ۔ صرف ایک فقرہ نہیں، ایک عہد کے انجام کا بیان ہے۔ دس سال فیلڈ مارشل نے آہنی ہاتھوں سے حکومت کی۔ تمام تر طاقت کے باوجود مگر جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ نہ کر سکے۔ اس کے برعکس اسی دور میں بائیس بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ طاقتور فوجی الیٹ ابھر کر سامنے آئی۔

ملکی وسائل کی تقسیم مزید نا ہموار ہو گئی۔ ایک شاطر سیاستدان جو کل تک فوجی آمر کے ساتھ تھا موقع دیکھ کے اسی کے خلاف متحرک ہو گیا۔ ملک ٹوٹا تو منصوبے کے عین مطابق بچے کچھے پاکستان پر بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔ چند ہی سال گزرے ہوں گے کہ نو ستاروں نے اکٹھے ہو کر بھٹو حکومت کے خلاف ہیجان خیز تحریک بر پا کر دی۔ ملک ایک اور مارشل لاء کی نظر ہو گیا۔ آزادی کی تحریک میں نوجوانوں کی صورت جدوجہد کرنے والی نسل اب ادھیڑ عمری کے دہانے پر کھڑی تھی۔ خواب کی تعبیر سے پہلے ہی معدوم ہونے کو کھڑی تھی۔ ایک اور نسل ناکام ہو نے کو کھڑی تھی۔

غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے والے انتخابات نے ایک نئی نسل کو سیاست سے متعارف کروایا۔ پیسے کے زور پر سیاست کرنے والی نسل۔ دولت کے زور پر جو اقتدار میں آتے ہیں اور اقتدار کو دولت کمانے کا ذریعہ جو جانتے ہیں۔ میری عمر کے پاکستانیوں نے اسی سیاسی نسل کو بام عروج پر پہنچتے دیکھا۔ نوے کی دہائی میں اسی طرز سیاست کو پروان چڑھتے دیکھا۔ نوے کی دہائی جہاں دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹے جانے کی المناک داستان ہے تو وہیں یہ وہی دور ہے جب ارکان پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کو باقاعدہ منڈی کا درجہ حاصل ہوا۔

عام زبان میں اس منڈی میں کیے جانے والے کاروبار کو ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا گیا۔ منڈی کے بھاؤ تاؤ میں تیزی اس وقت آتی جب چور دروازوں سے اندر باہر آنے جانے والے ہواؤں کا رخ بتاتے۔ بحران در بحران، ایک کے بعد دوسرے کو گرانے بٹھانے کا کھیل جاری تھا کہ جنرل مشرف نے پوری بساط ہی لپیٹ دی۔ عوام نے ایک بار پھر سکون کا سانس لیا۔ مشرف کمزور پڑے تو دونوں خاندانوں نے واپسی کی راہ لی۔ اب کی بار مل بانٹ کر حکومت کرنے کا عزم کیا۔ مشرف کے بعد کا عشرہ حالیہ تاریخ ہے جسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ عہد زیاں جسے کہتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں سیاسی شعور کی آنکھ کھولنے والی ہماری نسل کے بالوں میں اب چاندی اتر چکی تھی۔ چند خاندانوں کے حق حکمرانی کو اپنا مقدر سمجھ کر بیٹھ رہے تھے کہ اچانک اکتوبر 2011 ء میں عمران خان واقع ہو گئے۔ صرف نوجوانوں نے ہی نہیں، ہماری نسل نے بھی انہی سے یکا یک امیدیں وابستہ کر لیں۔ عمران خان ایک پراجیکٹ تھے یا نہیں، ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ انہیں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اب بھی ہے۔ پراجیکٹ کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے، اس سے قطع نظر ساڑھے تین چار سال کی حکومت کے بعد صرف عمران خان ناکام نہیں ہو رہے، دہشت گردی کے ہاتھوں زخم خوردہ، روایتی سیاسی خاندانوں سے بیزار ایک اداس نسل کے خواب ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک مختصر مگر تلاطم خیز عہد تمام ہو رہا ہے۔

کیا حالیہ سیاسی بحران کسی ایک بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ کچھ قوتوں کو عمران حکومت کے خاتمے میں دلچسپی ہو۔ تاہم ایک یہی بحران نہیں، بحران در بحران کی جڑ الیٹ طبقے کے باہم جڑے گروہی مفادات پر استوار نا انصافی پر مبنی نظام ہے۔ کیا یہ سول ملٹری کشمکش کا معاملہ ہے؟ کشمکش، مگر اب کس کے درمیان؟ اس وقت کہ پوری قوم ہیجان کا شکار ہے، کیا کسی کو معلوم ہے کہ نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟ اس دوران ان کی آتش دہن بیٹی کا اداروں کے خلاف آگ اگلتا ٹویٹر کیوں سرد ہے؟

شہباز شریف قومی حکومت کا منصوبہ لئے پھرتے ہیں کہ ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لینے والی پارٹی جس کا حصہ نہیں ہوگی۔ سرکاری افسروں کو ٹی وی کیمروں کے سامنے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سعد رفیق سندھ ہاؤس میں پائے جانے والوں کو قومی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں لگ بھگ چالیس سال ہم پیچھے جا گرے ہیں۔ سندھ ہاؤس کے باہر کوئی اور نہیں شرجیل میمن بھاشن دے رہے تھے۔ صرف وہی نہیں، وہ سب جو بیماریوں کی بناء پر عدالتوں میں پیشیوں سے قاصر تھے، اب اسلام آباد میں قلانچیں بھر رہے ہیں۔

وہ جن کو سزائیں سنائی گئی تھیں، ہماری اور ہماری آنے والی کئی نسلوں کی تقدیر ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں ہے۔ سوچتا ہوں وہ جنہوں نے عرق ریزی سے قومی دولت لوٹے جانے کے ثبوتوں پر مشتمل دس والیمز معزز ججوں کے سامنے رکھے تھے، فیک بنک اکاؤنٹس پر مشتمل منظم نیٹ ورک بے نقاب کیے تھے، اس وقت گھروں میں بیٹھے کیا سوچ رہے ہوں گے؟ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے پورے کا پورا سسٹم ہے جو کارفرما ہے۔ جو کا تا تھا اب اپنے ہاتھوں سے ادھیڑا جا رہا ہے۔ عمران خان تو محض ایک فرد ہے۔ آج وہ ہیں کل کوئی اور ہو گا۔ کسی ایک فرد کی ناکامی کا نہیں یہ قومی اداروں کی بے بسی کا نوحہ ہے۔ ایک بار پھر پوری ایک نسل کی ناکامی کا نوحہ ہے۔ خوش قسمت ہیں جو خواب آنکھوں میں لئے ابدی نیند سو گئے۔ تعبیر کے لئے نہ جانے کتنی اور نسلوں کو انتظار کرنا ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments