شاہ محمود قریشی کا اعتراف


حکمرانوں پر الزامات لگا کرتے ہیں۔ عمران خان پر بھی ہیں، لہٰذا انھیں ایک طرف رکھئے۔ سبب یہ ہے کہ حزب اختلاف کے الزامات دہرا دیے جائیں تو بے لاگ تجزیے پہلی شرط ہی پوری نہ ہو پائے گی۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کی وجوہات مختلف انداز میں تلاش کی جائیں۔

عمران خان کو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی طرح تحریک عدم اعتماد کا چیلنج درپیش ہے۔ بے نظیر بھٹو کا زمانہ مختلف تھا۔ اس واقعے کے عینی شاہد دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جب آزمائش سے دوچار ہوئیں، عمران خان کے مقابلے میں کمزور تھیں، پھر بھی سرخ رو رہیں۔ عمران خان کا معاملہ مختلف ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے تک خیال یہی تھا کہ عمران اس چیلنج سے نمٹنے میں بآسانی کامیاب رہیں گے۔ فریقین معاملہ کی بات الگ ہے لیکن عمومی تاثر یہی تھا۔ یہ تاثر برقرار رہتا اگر بیچ میں ایک واقعہ نہ ہو جاتا۔ یعنی سندھ ہاس میں فروکش وہ اراکین قومی اسمبلی سامنے نہ آ جاتے، تحریک انصاف سے جن کا کوئی نہ کوئی تعلق ہے یا رہا ہے۔ ان بارہ پندرہ، اس سے زیادہ یا کم ارکان کے سامنے آنے کے بعد بحث کا رخ بدل گیا ہے۔

کہنے والے اگرچہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ثابت ہو گیا کہ حکومت اکثریت سے محروم ہو چکی لہٰذا عمران منصب چھوڑ دیں۔ سیاست کی دنیا میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ انھیں نفسیاتی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ان باتوں سے مخالفین کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کے بیانات کی دوسری وجہ بھی اسی قسم کی ہے۔ ان باتوں سے ہم خیال لوگوں یا اپنے حلقہ انتخاب کا عزم اور یقین پختہ کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق ایسے دعووں سے خاصے مختلف ہوتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا، ان سے عملی سیاست کے ایسے مظاہر ہی سامنے آئیں گے۔

سندھ ہاؤس میں قیام کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کے سامنے آنے سے شروع ہونے والی بحث مختلف پہلو رکھتی ہے، اس کا تعلق سیاست کے نظریاتی پہلو سے ہے یا مثالیت پسندی(Idealism)  سے۔ ان اراکین کے سامنے آنے کے بعد فوری طور پر دو طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان میں ایک تو سندھ ہاؤس پر حملہ ہے۔ یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس کی مذمت ہونی چاہیے اور ہو بھی رہی ہے، لہٰذا سردست یہ ہمارے زیر بحث نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کے کارکنوں نے ملک کے چند شہروں میں ان اراکین اسمبلی کے خلاف مظاہرے کیے اور ان کی رہائش گاہوں کا گھیراؤ کیا۔ جہاں تک مثالیت پسند سیاست کا تعلق ہے، یہ مظاہرے پسندیدہ ہیں۔ سیاست میں استحکام پیدا کرنے کے لیے جہاں دیگر بہت سے اقدامات ضروری ہیں، وہیں اس قسم کا عوامی دباؤ  بھی اہمیت رکھتا ہے۔

معاشرے میں سیاسی کارکن یوں بیدار ہوں اور اپنے منتخب نمائندوں کی بے راہ روی پر سڑکوں پر آکر ردعمل کا اظہار کریں تو اس کے نتیجے میں بڑی مثبت تبدیلیاں رونما ہو جائیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا یہ ردعمل اس اعتبار سے مستحسن ہے اور ان کی حوصلہ ضروری ہے۔ یہ تو ہوا اس معاملے کا نظریاتی پہلو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کا یہ ردعمل سیاسی سطح پر وہ دباؤ پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا؟

اس احتجاج، گھیراؤ اور دباؤ کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ایک سبب ہے۔ سیاسی معاملات محبت کے بے پناہ جذبوں کی طرح کھلا دل نہیں رکھتے۔ یہ چیزیں فزکس کے ردعمل کے اصول کی طرح ہوتی ہیں۔ لوگ یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ جس معاملے میں کسی فریق کی طرف سے جس اچھے اصول کی پاسداری کی توقع کی جا رہی ہے، اسی اصول کے سلسلے میں اس کا اپنا رویہ کیسا ہے؟

ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح اور مرض 1985 ءسے شروع ہونے والی سیاست کی دین ہے۔ اس زمانے میں بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی سیاست اس برائی میں گردن گردن دھنسی ہوئی تھی۔ ان دونوں سیاست دانوں نے اپنی اس لڑائی کو بساط ِسیاست اٹھا کر ذاتی دشمنی کی سرحدوں میں لا داخل کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں ہم اس تلخی سے بدمزہ ہوتے ہیں جس نے ان دنوں سیاسی عمل میں زہر گھول رکھا ہے۔ ممکن ہے کہ ماضی بھی ماحول اتنا ہی یا اس سے کہیں زیادہ تلخ رہا ہو۔ اس تلخی کی پرچھائیں ان مشکل ایام میں بھی دکھائی دیں جب جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کی بیخ کنی کی۔ اس نازک موقع پر بھی متحارب فریقین توقع رکھتے تھے کہ اس موقع پر دشمن سے حساب چکایا جاسکتا ہے لیکن یہ توقع خام خیالی ثابت ہوئی۔ اس طرح ‘ دشمنوں’ کی سمجھ میں آیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ میثاق جمہوریت غلطی کے اسی احساس کا نتیجہ تھا۔

یہ نہیں ہے کہ میثاق پر دستخط کرنے والی دونوں جماعتوں نے بعد میں کوئی غلطی نہیں کی۔ بہت غلطیاں کیں لیکن غلطیوں کے باوجود وہ چند اصولوں پر جمی رہیں۔ ان میں ایک اصول لوٹا کریسی کی حوصلہ شکنی بھی تھا۔ یہ دونوں جماعتیں جس زمانے میں اس میثاق کو غنیمت سمجھ کر اس کی حفاظت کر رہی تھی، کچھ دیگر قوتوں کی طرف سے اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسے مذاق جمہوریت کا نام بھی دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس کا مقصد باریاں لگانا ہے۔ اسی بدگمانی میں اس میثاق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔

یہ عمل کیسے ہوا؟ اس کی مثالیں بہت سی ہیں۔ عین اس زمانے میں جب میثاق جمہوریت کے جسد خاکی کو روند کر بعض فرزندان سیاست مشرف بہ انصاف ہو رہے تھے، کسی اینکرنے ایک بلند آہنگ شخصیت سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے کیا کوئی لانڈری لگا رکھی ہے کہ جو آئے پاک صاف کہلائے؟ اس وقت جواب دینے والے نے جواب دیا کہ جی ہاں، بالکل۔ موجودہ بحران میں جب لوگ اسی عمل کی تکرار دیکھتے ہیں اور اس پر کچھ لوگوں کی دہائی سنتے ہیں تو انھیں ماضی یاد آ جاتا ہے اور وہ مسکرا کر تماشا دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

موجودہ سیاسی بحران کی شدت میں اضافے کا ایک سبب بے لگام تلخ کلامی بھی ہے۔ اس شدت بھرے ماحول میں مخدوم شاہ محمود قریشی کو آگے لانا خوش آئند ہے۔ ممکن ہے، اس سے دس لاکھ کے مجمعے سے گزر کر ووٹ ڈالنے والوں کو تنبیہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایسا ہوتا ہے تو یہ خیر کی جانب ایک بڑا قدم ہو گا لیکن ہماری توجہ اس سے بڑھ کر مخدوم صاحب کے ایک بیان کی طرف ہے۔ انھوں نے جمعے کی پریس کانفرنس میں کہا کہ میثاق جمہوریت کی روح ابھی زندہ ہے۔ اللہ کرے ان کی یہ توقع درست ثابت ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بات کہنے میں انھوں نے بہت دیر لگا دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments