مانسہرہ میں خواجہ سراؤں کے خلاف پولیس گردی کے بڑھتے واقعات


”ہم سب“ سے پہلے اخبارات میں زیادہ تر سیاست کے موضوع پر ہی لکھا جاتا تھا۔ ”ہم سب“ پر شائع ہوئی مختلف تحریروں کو پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اگر میں انسانی حقوق پر لکھتا ہوں تو ”ہم سب“ جیسی معتبر جگہ پر میری تحریر شائع ہو سکتی ہے۔ پھر ہم سب پر لکھنے والوں نے مجھے سپورٹ کیا اور ہم سب سے ہی میرا پہلا آرٹیکل شائع ہوا۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہوا۔

میں خواجہ سراؤں اور ویل چیئر پر بیٹھی لڑکیوں کو معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ سمجھتا ہوں۔ اسی لیے میری کوشش ہوتی ہے کہ انہی کی کہانیاں لکھی جائیں اور انہی کے مسائل پر زیادہ سے زیادہ بات کی جائے۔ میں ایسے لوگوں کے انٹرویوز لینے کی کوشش کرتا ہوں جن کے بارے میں پہلے کبھی نہ لکھا گیا ہو۔

میری تحریریں متوسط گھرانوں کی معذور لڑکیوں کی کہانیاں ہوتی ہیں جو گھر والوں کی سپورٹ سے بڑے بڑے کام کر رہی ہیں۔ مجھے خواجہ سراؤں کے مسائل کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معذور لڑکیاں ادھورے وجود کے ساتھ بڑے بڑے کام کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس خواجہ سرا ہاتھوں اور پیروں کے ہوتے ہوئے بھی بھیک، سیکس ورک اور ناچ گانے پر مجبور ہیں۔

خواجہ سرا خدا کی تخلیق ہیں۔ جنھیں تیسری جنس کے طور پر ہمارا قانون بھی تسلیم کرچکا ہے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے سب سے بڑے ذمہ دار ان کے گھر والے ہیں جو معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنے کے بجائے اپنے بچے پر دباؤ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ دباؤ جب حد سے گزر جاتا ہے تو کچھ بچے اپنے آپ کو گھروں میں قید کر لیتے ہیں۔ بہت سے خودکشیاں کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ گھر چھوڑنے والے گناہ کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

میں نے ایسی ایسی لڑکیوں کی کہانیاں لکھی ہیں جو خود سے کروٹ نہیں لے سکتیں، روٹی کا نوالہ خود سے نہیں توڑ سکتیں ان کے گھر والوں نے ان کا ساتھ دیا تو انھوں نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ دنیا بھر میں نام کمایا۔ جب میرے جیسے ادھورے جسم والے لوگ گھر والوں کی سپورٹ سے معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں تو مکمل جسم والے خواجہ سرا کیا کچھ نہیں کر سکتے۔

خواجہ سراؤں کا گزر بسر روایتی طور پر ناچ گانے، بھیک اور سیکس ورک سے ہوتا ہے۔ کرونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال نے خواجہ سراؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے ہوٹلز اور شادی ہال بند ہونے سے آمدن کا ذریعہ بند ہوا۔ دوسری طرف حکومت نے بھیک مانگنے پر پابندی لگا کر ان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا نادرہ خان اپنی اور اپنے چیلوں کی معاشی مشکلات کا ذکر مجھ سے کرتی رہتی ہیں۔ ڈیرھ سال قبل نادرہ نے کمپنی رجسٹرڈ کرانے کا فیصلہ کیا تو کہا گیا کہ پہلے بنک میں اکاؤنٹ کھولیں۔ نجی بنک میں اکاؤنٹ کھولنے گئیں تو بنک نے اکاؤنٹ کھولنے سے انکار کر دیا۔ اعتراض کیا گیا کہ آپ کی کمائی ناچ گانے کی ہے جو کہ حرام ہے۔ اس لیے آپ کا اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا۔

نادرہ کے پاس فلموں، ڈراموں اور سٹیج پر کام کا وسیع تجربہ ہے۔ میں بہت عرصے سے نادرہ کے پیچھے پڑا ہوں کہ کسی اچھے سے لکھاری سے خواجہ سراؤں کی زندگیوں پر ڈرامہ لکھوائیں۔ اچھی سی ٹیم بنا کر مختلف شہروں میں تھیٹر لگائیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے نادرہ پڑھنے اور لکھنے والے کاموں سے کتراتی ہیں۔ اپنے چیلوں کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لئے نادرہ نے مہندی نائٹ، بھنگڑا پارٹی وغیرہ ٹائپ کے چھوٹے چھوٹے ایونٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایونٹ میں داخلے کے لئے ٹکٹ رکھا گیا۔

مانسہرہ سٹی پولیس میں خواجہ سراؤں سے دشمنی رکھنے والے کچھ اہلکار پائے جاتے ہیں۔ جو ہر تھوڑے دن بعد کبھی خواجہ سراؤں کے گھروں میں گھس کر مارپیٹ کرتے ہیں۔ کبھی ان سے پیسے چھین لیتے تو کبھی ان کے ایونٹ رکوا دیتے ہیں۔

چودہ فروری کو نادرہ خان نے مہندی نائٹ کے نام سے ایک ایونٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔ ایونٹ کا ٹکٹ تین سو روپے رکھا گیا۔ ایونٹ والے دن مانسہرہ پولیس نے ہوٹل انتظامیہ کو ایونٹ کینسل کرنے کا کہا اور خواجہ سراؤں کو نکال باہر کیا۔ خواجہ سراؤں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انھیں بتایا جائے کہ وہ اپنا گزر بسر کیسے کریں۔

مانسہرہ پولیس نے سوشل میڈیا پر موقف اختیار کیا کہ عوام کی شکایات کہ نتیجے میں شو رکوایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ لیکن یہ مذمت پولیس کے رویے میں تبدیلی نہ لاسکی۔

کچھ روز قبل نادرہ نے پھر ایک ایونٹ رکھا۔ جس پر پولیس نے پھر دھاوا بول دیا۔ اس بار خواجہ سراؤں کو خوب مارا پیٹا گیا۔ نادرہ ہر واقعے کے بعد پولیس سے سوال کر رہی ہیں کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کا قصور کیا ہے وہ اور ان کے چیلے اپنا پیٹ کیسے پالیں۔

چند روز قبل مانسہرہ میں ایک اوباش نوجوان نے خواجہ سراؤں کے ڈیرے میں گھس کر پانچ خواجہ سراؤں پر گولیاں برسائیں۔ افسوسناک واقعے کے دو دن بعد مردان میں چاند نامی خواجہ سرا کو قتل کر دیا گیا۔ جبکہ کل مانو نامی خواجہ سرا کا پشاور میں قتل ہوا۔

تشدد کی حالیہ لہر سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خیبرپختون خواہ میں خواجہ سراؤں کو جان و مال کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔ خیبر پختون خواہ کی پولیس خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ بلکہ گاہے بگاہے خواجہ سراؤں پر حملے بھی کرتی رہتی ہے۔

خواجہ سرا کمیونٹی کی طرف سے مانسہرہ کے مخصوص اہلکاروں کے نام کثرت سے لیے جا رہے ہیں۔ لیکن آئی۔ جی اور وزیر اعلٰی کی طرف سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ جو کہ قابل مذمت ہے۔ لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے میں وزیراعلٰی اور آئی۔ جی سے اپیل کرتا ہوں کہ تشدد کے ان واقعات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مجرموں کو کیف کردار تک پہنچایا جائے۔ اگر آپ نوٹس نہیں لیں گے تو اسی طرح سوالات ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments