اپوزیشن پارٹیاں اور ان کی موجودہ سیاست


20 ستمبر 2020 کو پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اپوزیشن جماعتوں کے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں موجودہ سیلیکٹڈ حکومت اور ان کے سیلیکٹرز کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک سیاسی اتحاد کا اعلان کیا گیا تھا، کل جماعتی کانفرنس میں شامل پارٹیوں کے لیڈرشپ نے ان غیر جمہوری قوتوں کے خلاف جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا تھا جو عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتے، ان پارٹیوں میں ایک طرف وہ جماعتیں شامل تھیں جنہوں نے ہمیشہ جمہوریت کے نفاذ کے لئے جدوجہد کی ہے تو دوسری طرف ان جماعتوں نے بھی سویلین بالادستی کے لئے جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا جن کا سیاسی کردار ماضی میں جمہوریت کے خلاف رہا ہے۔ اس کانفرنس میں 26 نکات کا چارٹر آف ڈیمانڈ اور لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا تھا۔

ان 26 نکات میں اس اتحاد کو پی ڈی ایم کا نام دیا گیا۔ اس چارٹر آف ڈیمانڈز کے نکات میں سویلین بالادستی کے ساتھ ساتھ ان تمام اہم نکات کا احاطہ کیا گیا تھا جو پاکستان میں آئین اور قانون کی پامالی سے متعلقہ مسائل ہیں۔ ان نکات میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں لانے بلکہ مستقل طور پر سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے، 1973 ء کے آئین، اٹھارہویں آئینی ترمیم، اور این ایف سی ایوارڈ کے تحفظ کو یقینی بنانے کا اعادہ کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی افغان پالیسی کی ناکامی، میڈیا پر پابندیوں اور سنسرشپ، سیاسی مخالفوں پر انتقام کی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات اور گرفتاریوں، نیشنل ایکشن پلان پر درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات اور عدلیہ پر دباؤ ڈال کر فیصلوں پر اثرانداز ہونے پر تشویش کا اظہار اور ان مسئلوں کے حل کے لئے جدوجہد کا اعادہ کیا گیا تھا، اس چارٹر آف ڈیمانڈز میں آغاز حقوق بلوچستان کی حمایت اور بلوچستان میں سول حکمرانی کے احترام اور ایف سی کی جگہ سول اتھارٹی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان نکات میں مسنگ پرسنز کی بازیابی جیسا اہم مسئلہ بھی شامل تھا، اس می ایک بہت ہی اہم مطالبہ یہ بھی شامل تھا کہ ایک ٹروتھ کمیشن بنایا جائے جو 1947 ء سے اب تک پاکستان کی حقیقی تاریخ کو دستاویزی شکل دے۔

اس چارٹر آف ڈیمانڈز سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ماضی میں ان پارٹیوں کا جو بھی کردار رہا ہو مگر اب یہ پارٹیاں جمہوریت اور سول سپریمیسی کے لئے جدوجہد کا تہیہ کر چکی ہے، محمود خان اچکزئی جیسا لیڈر جس کی ساری عمر جمہوریت کے لئے جدوجہد کرتی گزری ہے وہ بار بار اپنی تقاریر میں ذکر کرتے کہ ہماری جدوجہد صرف اس حکومت کو ہٹانا نہیں بلکہ مستقل طور پر ان قوتوں کا راستہ روکنا ہے جو اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دے رہے، سابقہ سینیٹ کے انتخابات تک پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان اختلافات کم سے کم رہے اور اس لئے سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے پی ڈی ایم نے کچھ فیصلے کیے تھے جس کا ماننا پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے لئے لازمی تھا، اس لئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کے انتخابات میں سپورٹ کیا جس کی وجہ سے وہ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے، مگر جب سینیٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر کے لئے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کے فیصلوں سے روگردانی کی، اور جب اس وجہ سے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تو ان دو پارٹیوں نے اس بات کو بہانہ بنا کر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کی، اور یوں خلائی مخلوق کا پی ڈی ایم کو کمزور کرنے کا منصوبہ کامیاب رہا۔

گزشتہ چند مہینوں سے پھر اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رابطے بحال ہوئے ہیں، اگر چہ پیپلز پارٹی اور اے این پی دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنی ہیں مگر یہ لوگ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر رضامند ہوئے ہیں، اس سلسلے میں اپوزیشن پارٹیوں نے حکومتی اتحاد کی پارٹیوں سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ یہ لوگ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ استعمال کریں، اپوزیشن جماعتوں کے کچھ لوگ اقتدار میں حصہ لینے کے لئے بیتاب نظر آرہے ہیں، یہ لوگ 20 ستمبر 2020 ء کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے چارٹر آف ڈیمانڈز پر چپ سادھ کر اپنی ساری توپوں کا رخ پی ٹی آئی کی طرف کر چکے ہیں، اب کوئی سیلیکٹرز کی بات نہیں کرتا، بات صرف وزیر اعظم کو ہٹانے پر مرکوز ہو چکی ہے۔

اس صورتحال میں عوام کے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا، اس لئے کہ عوام کے مسائل کا حل پائیدار جمہوریت سے جڑا ہوا ہے، جس کو اپوزیشن پارٹیاں پس پشت ڈال چکی ہے، اگر ان 26 نکات کے لئے جدوجہد جاری رہتی جو کل جماعتی کانفرنس کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں شامل تھیں تو سویلین سپریمیسی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا تھا مگر شاید یہاں پر بڑی پارٹیاں جمہوریت اس کو کہتی ہیں جس میں وہ اقتدار کا حصہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments