گلگت بلتستان میں جشن نوروز کا رنگ و سماں


عید نوروز ہر سال 21 مارچ کو دنیا بھر میں کروڑوں لوگ مناتے ہیں۔ مگر یہ دن قریب آتے ہی اکثر لوگ اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ عید نوروز کی شرعی حیثیت کیا؟ یہ اسلامی عید ہے بھی یا نہیں؟ تو سب سے پہلے یہ جان لیں کہ عید کیا ہے؟ عید خوشی کا وہ دن ہوتا ہے ’جو کسی ملک، قوم یا مخصوص علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر مناتے ہوں۔ جس سے باہمی اتحاد و یگانگت، بھائی چارگی اور محبت کو فروغ ملتا ہو۔

نوروز بھی ایک ایسا ہی تہوار ہے ’جس میں لوگ اپنے سال بھر کی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے پیاروں، عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ مل کر خوشیوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں اسے منانے کا انداز محبت اور یگانگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ایک دوسرے کو گھروں میں دعوت پر بلاتے ہیں۔ سویاں، حلوہ اور دیگر چیزوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وطن عزیز کی سلامتی اور ترقی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ جشن نوروز کے موقع پر دوستوں، عزیزوں اور قرابت داروں میں بطور تحفہ عیدی بانٹنے کا رواج بھی ہے۔ جس سے آپس میں خلوص و محبت پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ چھوٹے بچوں کو رنگ برنگ کے انڈے تحفے میں دیے جاتے ہیں۔ اس دن بچے انڈے لڑاتے ہیں اور انڈوں کا کھیل نہایت دل چسپ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں اس دن والدین اپنے ایک سال سے کم عمر کے بچے اور بچیوں کو خوب صورت لباس پہنا کر ایک مخصوص مقام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور کسی بزرگ کے پیٹھ پر سوار کرا کر چکر لگواتے ہیں تاکہ یہ بچے مستقبل میں نیک سیرت، فرماں بردار اور خدا پرست ہوں۔ اسے مقامی زبان میں رسم ڈاڈا کہتے ہیں۔ بعد ازاں مٹھائیاں اور دیگر کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی ہیں۔ جو کہ گھروں میں خاص اہتمام کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔ جنھیں شینا زبان میں ”اشار“ کہتے ہیں اور رسم ”ڈاڈا“ کو استاد محترم جناب حیدر خان حیدر اپنی شعری گلدستہ ”جمال فرش و فلک“ میں یوں بیان فرماتے ہیں۔

جشن نو روز آ گیا اب دھوم ہے ”ڈاڈا“ کی بھی
پشت پر پیروں کے اب ننھا سوار آنے کو ہے

الغرض یہ دن خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا خوب درس دیتا ہے۔ اسلام میں تو ایسے ایام منانے کی تاکید بھی ہے ’جس سے آپس کی نفرتیں مٹنے کا امکان ہو اور عقل بھی یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ وہ آداب و رسوم جو اسلامی اہداف و اصول کے متصادم نہ ہوں تو ایسے رسوم منانا قباحت والی بات نہیں۔ نوروز بھی ایسے قابل تحسین پہلو سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ عید نوروز منانے کے متعلق چند روایات بھی ملتی ہیں۔

حضرت امام جعفر صادقؑ کا ارشاد ہے کہ نوروز کے دن پاک و صاف لباس پہننا، خوشبو لگانا، آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور درود پڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر پانی یا گلاب چھڑکنا سنت ہے۔ اس لیے کہ اس دن حضرت رسول ﷺ خدا نے بھی خوشی منائی تھی۔ ایک اور روایت کے مطابق نوروز کے دن حضرت حزقیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے قوم کے ستر ہزار مردوں پر پانی چھڑک کر زندہ کیا تھا۔ یہ لوگ دوبارہ اپنی بستیوں میں آباد ہو گئے تھے۔

اس عید کی مخالفت میں ہمیں ایک بھی روایت نہیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی مجتہد نے منانے سے روکا ہے۔ اس بارے میں رہبر معظم نے بھی نوروز کو عید کہنے کو غلط نہیں کہا ہے۔ رہبر معظم امام خامنہ ای تو عید نوروز پر ملت ایران کے نام اپنا پیغام ریکارڈ کرواتے ہیں۔ جبکہ آیت اللہ اسحاق فیاض فرماتے ہیں کہ عید نوروز ایک قومی عید ہے اس کو صلہ رحمی کے عنوان سے منانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر افسوس ہے اکثر لوگ اس تہوار کو بھی اپنی کم علمی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ بعض افراد کو اس لیے بھی چڑ ہے کہ اس دن غیر اسلامی رسومات کو فروغ ملتا ہے تو جناب! ہر چیز کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ اگر آپ کی عبادت بھی کسی کے لیے زحمت کا باعث بنے تو یہ بھی جائز نہیں۔

بیشک یہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کی طرح شرعی حیثیت نہ رکھتا ہو لیکن علاقائی تہوار ضرور ہے اور تہوار کسی مخصوص فرقے کا نہیں بلکہ یہ قومی ورثہ ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے آبا و اجداد نے ہم تک پہنچایا ہے اسی طرح اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ اسے آئندہ نسلوں تک پہنچائیں۔ مجھے ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے ’جو محلے کی درجن بھر گھروں میں دعوتیں اڑانے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ نوروز کوئی عید نہیں۔ جب عید نہیں ہے تو یہ دعوتیں کس بابت اڑائی جاتی ہیں؟ لہٰذا اسے تعصب کا رنگ دے کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کے بجائے خوشی کے ان لمحات کو مل بیٹھ کر انجوائے کرنے کی کوشش کیجیے۔ کیونکہ عید نوروز بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا اپنا مخصوص رنگ و سماں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments