یوم پاکستان، رمضان اور ہم


عاشق کو پاکستان سے عشق تھا۔ یوم آزادی اور یوم پاکستان پر گھر پر جھنڈا لگاتا تھا، اپنے ملک سے اظہار محبت کا اس سے شاندار طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ 23 مارچ والی اسلام آباد کی پریڈ کی ایک بھی ریہرسل ایسی نہیں تھی جس میں اڑتے ہوئے جہاز نہ اس نے گنے ہوں، سگریٹ کے دھوئیں اور جہاز کے دھوئیں میں مماثلت ڈھونڈتا تھا، بلکہ اپنے گھر کی چھت پر بچوں سے پریڈ بھی کرواتا تھا تاکہ حب الوطنی پر کوئی شک نہ رہے، اپنے بچوں کو تو ابھی سے وہ فوجی سمجھنے لگا تھا۔

تمام چھٹیوں کی طرح 23 مارچ کی چھٹی کا بھی شدت سے انتظار کرتا تھا آخر پاکستانی جو تھا، چھٹی ہو گی تو پریڈ ٹی وی پر دیکھ کر ملک سے محبت کا اظہار کر سکے گا ورنہ ضمیر کے بوجھ کا کیا کرتا؟

کل کچھ دکانیں اپنی نگرانی میں مسمار کروائی تھیں اور باقی دکانداروں نے پیسے دے کر اپنے روزگار کو بچایا تھا۔ وہ تھا تو سرکاری ادارے کا ملازم، کبھی مزدور سے پیسے لے کر اسے سڑک پر بیٹھنے دیتا تھا تو کبھی پھل بیچنے والوں کو ہٹانے کی بجائے ان کی ریڑھی الٹا دیا کرتا تھا تاکہ دوبارہ غلط جگہ کھڑے نہ ہو سکیں اور خلاف قانون کام ہی نہ ہو۔ اس کی وجہ ملک اور محکمے سے وفاداری بتاتا تھا، ویسے بھی دو نعروں کا سچے دل سے قائل

تھا، ایک وطن سے محبت جس کا عملی ثبوت تھا پریڈ کا انتظار، دوسرا غریبوں کی خدمت، اسی لئے سب دکانوں کو مسمار نہیں کرتا تھا اور نہ سڑک کنارے کھڑی سب ریڑھیاں الٹاتا تھا، کچھ لوگوں پر ترس بھی کھا لیتا تھا جب رشوت کو ہدیہ سمجھ کر جیب میں رکھتا تھا۔ عاشق جانتا تھا کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی، اسی لئے کمانا اور خرچ کرنا ایک ہی رفتار سے جاری تھا۔

اب سوچ رہا تھا کہ رشوت والے پیسے کہاں کہاں استعمال کرے، یہ بھی سن رکھا تھا کہ اہل و عیال پہ خرچ کرنے کا بہت اجر ہے، اس لئے بیوی بچوں کے لئے کپڑے خرید لئے تھے اور کچھ پاکستانی جھنڈے خرید لایا تھا۔

باقی پیسے کہاں ہیں، عاشق سے بیگم نے پوچھا تو فوراً تھما دیے، ختم دلانے کا ارادہ تھا اور غریبوں کو کھانا کھلانا تھا۔ پھر یاد آیا کہ نماز کی نئی ٹوپی لینی تھی آخر رمضان بھی تو شروع ہونے والا تھا۔

سرکاری اداروں میں یہ سب عام ہے، نیکی کے کاموں کے لئے حرام کی کمائی اور حلال کی کمائی سے حرام کام، سب جاری ہے اور تبدیلی کا انتظار ہے، ایسی تبدیلی جس میں خود کو نہ تبدیل کرنا پڑے، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر، حمام ایک اور ننگے بے شمار۔

فرضی کردار عاشق کی کہانی فی الحال اتنی ہی، اب کچھ اور گفتگو کر لیتے ہیں۔ ایک خبر نظر سے گزری کہ پاکستان کا خوش رہنے والوں میں بھارت سے بہتر نمبر ہے۔

ایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم نے حال ہی میں دنیا کے سب سے خوش ممالک اور ناخوش ممالک کی درجہ بندی کی ہے جس میں فن لینڈ کو سب سے خوش اور مطمئن ملک قرار دیا گیا، اور یہ لگاتار پانچویں دفعہ اعزاز فن لینڈ کے پاس گیا ہے۔ 146 ممالک کے درمیان کی گئی درجہ بندی میں ان ممالک میں رہنے والے لوگوں کی ذاتی خوشی، اطمینان، آمدنی، زندگی گزارنے کے طریقے، آزادی اور خود اعتمادی جیسے عناصر کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ فن لینڈ کی خوبصورتی، لوگوں کے لئے سہولتوں کا بلند معیار، اداروں اور حکومت پر اعتماد، نا انصافی کی کم شرح، جرائم کی کمی جیسی وجوہات کی بنا پر اس کی جیت یقینی ہوئی ہے۔

لبنان معاشی مسائل کے باعث خوش ترین ممالک کی فہرست میں افغانستان سے ایک نمبر پہلے یعنی 145 پر آ گیا۔ پاکستان کا نمبر 121 واں ہے جبکہ بھارت اس فہرست میں 136 نمبر پر موجود ہے۔

چلیں اسی بہانے ہمیں خوش ہونے کا موقع مل گیا کہ ہم بھارت سے بہتر پوزیشن پر ہیں۔

ہم رمضان سے پہلے ذخیرہ اندوزی کرنا نہیں بھولتے، رمضان میں دودھ کا استعمال بڑھ جاتا ہے اس لئے نارمل سے زیادہ پانی ملانے کا اجر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، مہنگے دام اشیاء کی فروخت بھی نیکی کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے کیوں کہ اضافی پیسوں سے افطاری بھی تو تقسیم کرتے ہیں، روزہ دار کی خدمت بہت بڑی نیکی ہے۔

کرونا کی وبا آئی تو لگتا تھا کہ ویسے نہیں تو شاید اس بیماری اور موت کے خوف سے معاشرے میں بہتری آئے گی، گناہ اور برائی میں کمی آئے گی، لیکن ہم کہاں ڈرنے والی قوم ہیں ہم تو بہادر ہیں، خوش اور پر امید رہنے والے معاشرے کا حصہ ہیں، یہی تو اقوام متحدہ کی رپورٹ نے کہا ہے اور ہم نے انڈیا سے بہتر درجہ بھی حاصل کیا ہے۔

ایک دوست سے میں نے پوچھا کہ فلاحی مقصد کے لئے کون سے ہسپتال میں وہیل چیئر رکھوا دوں جہاں مریضوں کا فائدہ ہو، کہنے لگا قصائیوں کو چھری خرید کر دینے کا کیا فائدہ جو پیسوں کے پجاری ہیں، بیچ دیں گے۔

پیسوں کے پجاری سے یاد آیا یہ خبر تو سب نے اخبار میں پڑھی ہو گی کہ رحمان ملک جیسے سیاست دان کی میت اسلام آباد کے شفاء کے لئے قائم ایک انٹرنیشنل ہسپتال نے روک لی تھی کیوں کہ ابھی اولاد نے پیسے نہیں بھیجے تھے، غریب اور عام آدمی کا علاج کیسے اور کہاں ہوتا ہو گا آپ خود سمجھ دار ہیں۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات ان ہسپتالوں کی سجاوٹ کو دیکھنا نہ بھولئے گا کیوں کہ یہ بھی محب وطن کاروباری لوگ ہیں، عوام کا کچھ پیسہ جائز جگہ پر بھی لگاتے ہیں۔

خدا کرے کہ مری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments