خان صاحب اور ارطغرل!


آپ کو یاد ہو گا سال دو قبل وزیر اعظم عمران خان نے تاریخی ترک ڈرامے ”ارطغرل غازی“ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں کو یہ ڈرامہ دیکھنے کی بہت زور و شور سے ترغیب دی تھی۔ میں نے ارطغرل ڈرامہ سے پہلے کبھی بھی کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا تھا، بلکہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ڈرامہ کیا ہوتا ہے اور فلم کیا ہوتی ہے اور ان دونوں کے بیچ فرق کیا ہے۔ یہ تو ہمارے خان صاحب کی مہربانی ہے کہ ان کی طرف سے ترغیب کے بعد میں اس کی ساری قسطیں دیکھ چکا ہوں، یہ الگ بات ہے کہ اب بھی میرے لیے اس کو ایک خالص اسلامی یا تاریخی سیریز کہنا ممکن نہیں ہے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ اس سیریز میں تاریخ کم اور سنسنی پیدا کرنے کے لیے فرضی اور غیر مستند کہانیاں زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ سچ اور جھوٹ دونوں کی آمیزش سے بنے اس داستاں میں بعض بے پردہ خواتین کی موجودگی، موسیقی اور مردوں اور عورتوں کے درمیان گلے ملنے کے کچھ رومانوی مناظر کے ساتھ ساتھ بعض ایسی صوفیانہ حرکات کے مناظر بھی ہیں کہ جو عقیدہ توحید سے کسی طرح میل نہیں کھاتے، جس کی وجہ سے نہ تو اس سلسلہ کو مکمل طور پر اسلامی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی تاریخی، مگر یہاں مقصد جائز یا ناجائز کی بحث نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر خان صاحب اس ڈرامے سے اتنے زیادہ امپریس ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے اور کیا انہوں نے اس سے کچھ سیکھا بھی ہے یا فقط رومانوی مناظر سے ہی لطف اندوز ہوئے ہیں؟

ہم خان صاحب کو یاد دلاتے چلیں کہ اس سیریز کے دوسرے سیزن میں ارطغرل اپنے جنگجو عبدالرحمن غازی کو منگول کمانڈر نویان کے پاس بطور جاسوس بھیجنے سے قبل انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نویان تمہارے ساتھ ہر طرح کے کھیل کھیلے گا، وہ سونے کی ٹکیوں سے تمہیں آزمانے کی کوشش بھی کرے گا لیکن خبردار! تم نے اس شیطان کے فریب میں نہیں آنا ہے۔ اس کے بعد عبدالرحمن نویان کے پاس جاتا ہے، نویان چند سوالات کرنے کے بعد ان کے سامنے سونے کی ٹکیوں سے بھری ہوئی پیٹی رکھتا ہے، عبدالرحمن غازی پیٹی کھول کر سونے کو بڑے شوق سے ٹٹولنے کے بعد نویان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا ہے : میں نے اپنا قبیلہ سونے اور شہرت حاصل کرنے کی خاطر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس لیے چھوڑا ہے کہ میں آپ کی نئی مملکت میں اپنی جگہ بنا سکوں۔ سوال خان صاحب سے یہ ہے کہ آپ نے خود اپنے وزراء کا انتخاب کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا کہ جسے میں آج خرید رہا ہوں کل اسے کوئی اور بھی خرید سکتا ہے؟

اتنا عرصہ آپ کے زیر سایہ رہنے کے باوجود وہ اپنا ضمیر بیچنے سے رک کیوں نہیں گئے؟ ایسا کیوں ہے کہ جسے آپ خریدیں تو وہ ایماندار اور با ضمیر ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اور خریدے تو پھر وہ وہ بے ایمان و بے ضمیر بن جاتا ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جو منحرف وزراء آج باغی، بکاؤ اور ضمیر فروش ٹھہرے ہیں وہ آپ کے پاس آتے ہی ایک ہی جست میں ایمان دار، باضمیر، سچے اور کھرے کیونکر بن گئے تھے؟ ارطغرل کے دور میں عوام کے اوپر بڑے مشکل اور سخت حالات آئے لیکن انہوں نے کبھی سود کی اجازت نہیں دی۔

یہاں تک کہ جب ان کا بڑا بیٹا گوندوز چھوٹی عمر میں سود خوروں کے فریب میں آ جاتا ہے اور اس کا ارطغرل کو پتہ چل جاتا ہے تو آپ اسے سخت ڈانٹ پلا کر اس کی اصلاح کی خاطر اس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ لیکن آپ نے کیا کیا جناب؟ اپنے وعدوں کے برعکس سابقہ حکومتوں سے کئی گنا زیادہ سودی قرضہ بھی لیا اور اس کے باوجود عوام کو مہنگائی کے دلدل میں بھی دھکیل دیا۔ ارطغرل کبھی منگولوں کے ساتھ اتحاد کر کے بازنطینی افواج کی قوت کو توڑ کر رکھ دیتا ہے اور کبھی بازنطینیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کی تباہی سے اپنے عوام کی جان و مال کو محفوظ بناتا ہے۔

اس اتحاد سے نہ تو ارطغرل عیسائی بن جاتا ہے اور نہ ہی تاریخ انہیں منگولوں کی صف کا شخص قرار دیتی ہے۔ یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کا مبینہ چوروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ضرورت کے تحت تھا اور اس کی وجہ سے آپ چوروں کے سربراہ نہیں ٹھہرے تو اب اگر کوئی آپ کی حکومت کو ناکام اور نا اہل سمجھ کر اس سے جان چھڑانے کے لیے کسی مبینہ چور کے ساتھ اتحاد کرتا ہے تو اس کا یہ اتحاد بھی چوروں کا دفاع کرنے لیے نہیں بلکہ آپ کی رخصتی کے لیے ہی تصور ہو گا۔ خان صاحب کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ جو کام جناب خود کرتے ہیں وہ حلال ہوتا ہے لیکن اگر وہی کام اسی انداز میں کوئی اور انجام دے تو وہ ان کے ہاں حرام بن جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے سابقہ بیانات اور موجودہ طرز عمل اس پر شاہد ہے۔

ساڑھے تین سال میں قوم کے سامنے آ کر اپنی تقریروں میں چور اور ڈاکو کی رٹ لگانے والے خان صاحب نے مگر کسی ایک چور سے آج تک ایک کوڑی بھی برآمد نہیں کی، حالانکہ جناب اختیار کے سب سے بڑے منصب پر براجمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ارطغرل نے تو بر سر بازار چور کا ہاتھ کاٹ کر سب کو حیران کر دیا تھا، آپ انٹرنیشنل دباؤ کی وجہ سے شاید اسلامی سزا نافذ نہیں کر سکتے لیکن مجرم کو احتساب کے کٹہرے میں تو لا کھڑا کر سکتے ہیں، سو!

بتائیے آپ نے اب تک کتنوں کا احتساب کیا؟ یا پھر بار بار قوم کے سامنے آ کر انہیں فقط چوروں کے نام ہی بتانے ہیں؟ اگر بقول آپ کے ایک چور ملک سے بھاگ گیا ہے تو بہت سارے ایسے دوسرے جنہیں آپ چور سمجھتے ہیں اب بھی ملک کے اندر موجود ہیں، آپ ان کا احتساب کیوں نہیں کرتے؟ اس سب کے علاوہ خان صاحب کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ارطغرل کے طرز گفتار سے بھی کچھ خاص نہیں سیکھا ہے چنانچہ ارطغرل بدترین دشمن کے سامنے بھی گھٹیا اور اخلاق سے گری ہوئی بات منہ سے نہیں نکالتے۔

وہ سخت سے سخت بات بھی ایسے شائستہ مگر بارعب لب و لہجے میں کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑے طاقتور دشمن کے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں، جبکہ خان صاحب جو زبان اپنے مخالفین کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ کسی عام آدمی کو بھی زیب نہیں دیتی چہ جائیکہ بندہ وزیراعظم بھی ہو۔ الغرض! کہاں ارطغرل اور کہاں ہمارے وزیراعظم صاحب! خان صاحب کے طرز عمل کو دیکھ کر شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں آنجناب اسلامی ہیروز کے نام اسلام پسند عوام کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے تو نہیں لیتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments