سنیل شیٹھی کی جادوئی کلاشنکوف


سنیل شیٹھی کی ایک پرانی فلم چل رہی ہے جس میں سنیل شیٹھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ولن کے لشکر سے لڑ رہا ہے۔

آپ ذرا تصور میں لائیں کہ سنیل شیٹھی نے پھٹی پرانی بنیان پہن رکھی ہے۔ جس پر ”آریولر مسلز“ areolar muscles اور میمری گلینڈز mammary glands کے پاس دو چار گہرے چرکے لگے ہوئے ہیں اور ہلکا ہلکا خون رس رہا ہے۔ پہلوؤں میں جان بوجھ کر ڈیزل اور تار کول کی لکیروں سے بنیان کو مزید میلا کچیلا کر رکھا ہے۔ شکر دوپہرا ہے۔ سنیل شیٹھی پسینے میں شرابور کلاشنکوف اٹھائے اندھا دھند فائرنگ کرتا ادھر ادھر بھاگ رہا ہے۔ بغلوں کے بال بھی صاف نہیں کر کے آیا۔

گھمسان کے رن میں دھول مٹی اتنی اڑ رہی ہے کہ سمجھ سنیل شیٹھی کو بھی نہیں آ رہی کہ ولن کی ٹیم کے کھلاڑی کہاں کہاں سے فائرنگ کر رہے ہیں اور مجھے بندوق کی نالی کا رخ کس جانب رکھنا ہے۔ سنیل شیٹھی بس دھول کے غبار میں گولیاں برساتا ہے تو وہ عین نشانے پر کمین گاہوں میں چھپے غنڈوں کو لگتی ہیں اور وہ ایک ایک کر کے گرنے لگتے ہیں۔ کئی ایک تو کنکریٹ کے ستونوں کے پیچھے ہیں لیکن آفرین ہے سنیل شیٹھی پر جس کی گولیاں کنکریٹ سے پار ہو ہو کر ان کے دماغوں میں گھس رہی ہیں۔

لیکن جب غنڈے جوابی فائر کرتے ہیں تو جس جگہ بھی سنیل شیٹھی کھڑا ہو وہاں قریب ہی کہیں نہ جانے کہاں سے پنجاب حکومت کے سرکاری گودام کی اونچی اونچی گندم کی بوریاں نمودار ہوجاتی ہیں اور سنیل شیٹھی ان کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ ہمیں اعتراض گندم کی بوریوں پر نہیں، سچ پوچھیے تو اعتراض تو ہمیں سنیل شیٹھی پر بھی نہیں بس یہ سوچ رہے ہیں کہ شاید بھارت میں قانون ہو کہ سرکاری گندم کی بوریاں عین شاہراہ کے بیچ میں رکھتے ہوں۔

اچانک ایک سائڈ ولن کی گولی شیٹھی کے اس ساتھی کو لگتی ہے جس نے یوم الست وعدہ ہی یہ کیا تھا کہ پروردگارا! میرا دنیا میں جانے کا مقصد سنیل شیٹھی اور اس کی ہیروئن کی سیٹنگ کروا کر بلاوجہ چھاتی تان کر گولیوں کے سامنے آ کر مر جانا ہے۔ بس اب شیٹھی پہلے خوب زور لگا کر چیختا ہے اور اپنا منہ بالکل اس انداز میں کھولتا ہے کہ اچھے والا شیور انڈا اس میں بالکل فٹ آ جائے۔ اس کے منہ سے غلیظ رال بہتی ہے۔ ساتھی دم توڑ گیا ہے، یہ چیخ رہا ہے۔

چیختے چیختے ٹریگر پر ہاتھ رکھ کر بوریوں کے پیچھے سے نکل کر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیتا ہے۔ کلاشنکوف شاید آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے لیس ہے کیونکہ اس کی نالی کا رخ تو درختوں اور بجلی کے کھمبوں کی طرف ہے لیکن گولیاں نہ جانے کہاں کہاں سے مڑ پھر کر سیدھی ولن کے دل کے مقام پر پیوست ہوتی جاتی ہیں۔ لڑکی جو غنڈوں کی قید میں ہے بار بار کہے جاتی ہے مت مارو میرے ارجن (سنیل شیٹھی ) کو، حالانکہ مار سنیل شیٹھی رہا ہے۔

اتنے میں سارے غنڈے مرے پڑے ہیں۔ جیسے ہی شیٹھی قریب آتا ہے لڑکی انگریزی حرف وی کی شکل میں بندھے ہاتھوں کو جھٹکا دیتی ہے اور کمزور رسیاں طوائف کے ناڑے کی طرح کھل جاتی ہیں اور وہ بھاگ کر شیٹھی کی سڑی ہوئی بنیان کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ پسینے کی بو سے بے نیاز ہو کر اس کے نپل پر لگے چاقو کے چرکے کو بوسہ دیتی ہے۔ ایک کے بعد ایک بوسہ دیتے دیوانہ وار اسے چومنا چاٹنا شروع کرتی ہے تو خدا جانے کیا ہوتا ہے کہ شیٹھی کی کلاشنکوف کی نالی آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ اور اس میں سے ایک فائر ہوجاتا ہے جس کے ساتھ ہی گانا شروع ہوجاتا ہے۔ دو بول گانے کے چلتے ہیں تو اگلے ہی لمحے وہ شیٹھی جس کے بدن پر دو انگل جگہ بھی ایسی نہ تھی جس پر زخم نہ ہو ٹائی سوٹ پہنے ہیروئن کے ساتھ نہر میں کھڑا ڈانس کر رہا ہے اور ایک معمولی سا سنی پلاسٹ ماتھے پر چپکایا ہوا ہے۔

کیا سمجھے؟
صحت مند اور ورزش کرنے والوں کے زخم اتنی جلدی بھرا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments