یعقوب شاہ غرشین کی افسانہ نگاری


 

یعقوب شاہ غرشین 1964 ء کو ضلع پشین میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو اور پشتو دونوں میں لکھتے ہیں۔ افسانے، رپورتاژ، اور سفرنامے لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی مشق سخن کرتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں موصوف کے افسانوی مجموعے ”بازگیر“ پر ایک اجمالی نظر ڈالی گئی ہے۔

بازیگر میں کل 14 افسانے ہیں۔ اکثر افسانوی کرداروں اور موضوعات کو پاکستانی اور پشتون معاشرے سے مستعار لیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے جو کچھ دیکھا ہے، وہی لکھا ہے : یعنی پشتون معاشرے میں ضعیف الاعتقادی، خاندانی لڑائیاں، قدامت پرستی، جنسی تشنگی، ناخواندگی، بے روزگاری، جوگیانہ پن اور امراء کے تعیش آمیز اور نفرت انگیز حالات زندگی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

”پھوڑا“ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے، یعنی جب احترام آدمیت ایک پھوڑا بن کر نحوست سے سعادت کی طرف یا الٹے پاؤں سفر کریں تو پھر اس پھوڑے کو جڑ سے نکالنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔ ”ٹوٹے بندھن“ میں بتایا گیا ہے کہ تقسیم نے خاندانوں کو منتشر کر دیا۔ ذات پات کی گھٹن نے رشتوں کا خون کیا، اور روایتی قدامت پرست رجحانات نے محبتوں کو سولی پر چڑھایا۔ محبتیں اب ملتیں نہیں، بل کہ پلو سے باندھ کر عمر بھر اس کی پوجا کی جاتی ہے۔

”من کے ہارے ہار ہے۔“ میں افسانہ نگار نے دیہاتیوں کی ضعیف الاعتقادی پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح لوگ جن، پری، دیو اور بھوت کا شکار ہوتے ہیں اور حفظ ماتقدم کے بہ طور جنتر منتر، دم، چپ، چاشت اور تعویز کا سہارا لیتے ہیں۔ جب کسی مسئلے کا سائنسی اور منطقی حل نہ نکالا جا سکے وہاں جن پری نمودار ہو کر لوگوں کو ہر لحاظ سے ناکارہ بنا لیتے ہیں۔ ”ماں“ ایک افسانے سے بڑھ کر بیٹے کی زبانی ایک ماں کی تحمید ہے، جو برسوں پہلے اپنے لخت جگر سے بچھڑ گئی ہے۔ کسی نعمت کی قدر اس کے زوال کے بعد معلوم ہوجاتی ہے۔ چند لمحوں کے لیے ماں کا خواب میں آنا اور واپس اوجھل جانا، واقعی یادگار لمحے بن جاتے ہیں۔

”موت کے بطن میں پلتی زندگی“ یعقوب غرشین کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔ مغرب میں حقوق نسواں کی تصویر کشی مینڈی اور مشرق میں شبو کے ذریعے کرا کر افسانہ نگار نے واضح کر دیا ہے کہ مغربی مردہ بطنوں میں زندگیاں پل سکتی ہیں، مگر مشرقی زندہ بطوں میں زندگیاں مر جاتی ہیں۔ ”بوئے خون دل ریش“ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ بڑے بڑے محلات، شاہی قلعے اور پرتعیش عمارات تب تک آباد رہیں گے جب تک عوام غیر آباد اور غلام رہیں گے۔

جوں ہی عوام کو غیرت آنے لگتی ہے اور بغاوت پر اتر آتے ہیں، تو پھر محلات، قلعے اور عمارات صرف عجائب گھر تک محدود رہتے ہیں۔ ”طلب ہم عنان“ میں سرسبز اور شاداب دیہاتی زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے کہ کس طرح جنت نظیر زندگیاں دوزخ کی نذر ہوجاتی ہیں، کس طرح مٹھی بھر شرپسند عناصر کی وجہ سے پوری دیہات انتقام کی آگ میں جھلس جاتی ہے۔ اس افسانے میں پشتون معاشرے میں سرایت کرنے والی منحوس روایات کا بہترین نفسیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔

”ملنگ باچا“ مکالمے کے لحاظ سے میرا پسندیدہ افسانہ ہے۔ میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ میرے زمانے کے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگوں سے گول چوک پر ایک خستہ حال ڈیرے میں رہنے والا بوڑھا ملنگ باچا زیادہ مہذب اور انسان دوست ہے۔ ملنگ باچا کا بلیوں اور کتوں سے خطاب خالی از دلچسپی نہیں۔ یہ ایک تمثیلی افسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں دولت سے جنم لینے والے فتنے اور صاحب بصیرت لوگوں کے فقدان کا نوحہ بھی اس افسانے میں کیا گیا ہے۔

”مانوس راہیں“ ایک جمالیاتی افسانہ ہے۔ فصل سے زیادہ جب وصل، محبت پر اپنے ڈیرے جما لیتی ہے تو پھر محبوب پتھر کی مورت بن جاتی ہے اور عاشق اس کی طلسماتی تپش سے موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ محبت وہی ہے جو امر ہو جائے۔ ”باپ، شوہر، بیٹا اور وہ“ عہد طفولیت، بلوغت اور کہولت کا دائروی سفرنامہ ہے، حالات کے ہاتھوں مجبوری کس طرح ایک لڑکی سے عورت اور پھر نانی بنا کر متلون مزاج بنا دیتی ہے۔ اس افسانے میں بچپنے کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔

وقت انسانی فطرت، رشتے، پسند نا پسند اور ترجیحات کس طرح تبدیل کرتا رہتا ہے، یہ سب اس افسانے میں مذکور ہے۔ ”میلاپ“ گلاب اور تتلی کے درمیان ایک تمثیلی مکالمہ ہے۔ یہ حسن و عشق کے بیچ دلآویز گفت گو ہے۔ اس مکالمے میں دوریاں مٹ جاتی ہیں، تاروں بھرے آسمان کے اونچے گنبد میں نغمۂ شادمانی کی بازگشت گونج جاتی ہے، اور چند لمحوں بعد گہری خاموشی چھا جاتی ہے۔ ”شکست داور“ دراصل شکست دلاور ہے۔ یہ افسانہ تصدیق کرتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی نوابوں، سرداروں اور امراء کی عزت و ذلت یا جیت ہار سگ بازی میں ان کے جنگی کتوں کی جیت یا ہار سے منسلک ہے۔

”زرد نگاہیں“ ایک تلخ افسانہ ہے۔ جنسی طور پر بیمار معاشرے میں عورتوں کا گھر سے نکلنا، ان کو درپیش مشکلات اور مجبوری کی حالت میں سمجھوتا ایک کرب ناک حقیقت ہے۔ ہمارے معاشرے سے اگرچہ طوائفیت ختم ہو گئی، مگر طوائفوں کے شوقین ختم نہیں ہوئے۔ ہر رہ گیر عورت طوائف نہیں ہوتی، جب کہ رہ گیر مردوں کی اکثریت اب بھی عورتوں کو فحش نگاہوں سے گھورتی ہے۔ اگر کسی مرد کو اس حقیقت میں شک ہے تو ایک دن برقعہ اوڑھ کر تجربہ کر لیں۔

اس مجموعے کا آخری افسانہ ”بازگیر“ ہے۔ یہ ایک معنی خیز افسانہ ہے۔ جبر و استحصال کی حدت سے لڑنے والا بارش کا پہلا قطرہ فنا تو ہوجاتا ہے، مگر پھر ہمیشہ کے لیے بہار ہی بہار رہتی ہے۔ ملک بنگو فرعون کے لیے کمال چاچا موسیٰ ثابت ہوا۔ جب کسی خطے کا سربراہ ملک بنگو کی طرح علاقائی وسائل کو لٹوانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں تو ایسے حالات میں کمال چاچا کی ظہور پذیری کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں۔

المختصر، یعقوب شاہ غرشین کے فن و فکر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر جو لطف ان کی اپنی تحریروں کے پڑھنے میں ہے وہ ان پر لکھے گئے مقالوں میں کہاں؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یعقوب شاہ غرشین بلوچستانی افسانوی ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے، لیکن مادہ پرستی کی دبیز تہوں میں یہ عظیم ادیب اب تک ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”آخری آنسو“ بھی بہت دل چسپ اور پڑھنے کا قابل ہے۔ یعقوب شاہ غرشین کے افسانوں کو پڑھیے اور زندگی کو نزدیک سے بے نقاب دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments