ادبی تنقید اور فلسفیانہ اصطلاحات کی تاریخ(9)


تحریر: علی حیدر علوی
تصنیف : Laocoon لاؤکون
مصنف: گوٹ ہولڈ اپیرم لیسنگ Gotthold Ephraim Lessing

ہر عہد میں روشن خیال اور فطرت پرست اذہان کی ہونے والی سمع خراشی نے پسماندہ و غیر فطری نظریات پر سوالات کے ایسے نیزے پھینکے ہیں کہ وہ نظریات تاریک ماضی کا حصہ ہو گئے۔ روشن خیال عہد Enlightenment Age میں جہاں علم کے نام پر الہامی نظریات کی خامیاں اجاگر کی گئیں وہیں ادب کو بھی غیر منطقی اور صنعت تصنع کے قدیم سحر سے آزاد کیا گیا۔ لاؤکون ہومر کے ڈرامے کا کردار ہے اور دیوتا Apollo کی حکم عدولی کے سبب دیوتا اس سے ناراض ہو گئے اور Laocoon اور اس کے دونوں بیٹوں کو سزا دی گئی۔

لاؤکون اور اس کے بیٹوں کا مجسمہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اژدھوں سے ڈسے کی وجہ پر ان کے چہرے پر شدید تکلیف سے آثار دکھائے گئے ہیں۔ اس تصنیف نے روایتی اور غیر فطری ادب کو مسترد کیا جس کی وجہ روایتی ادب پرستوں نے لیسنگ کے ترقی پسند خیالات کو مسترد کر دیا مگر ”کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں! ۔“ اسی سبب سے لیسنگ کو اس کا یہی نام موزوں لگا۔ اس طرح اس کتاب کا نام symbolic علامتی بن جاتا ہے۔ لیسنگ بنیادی طور پر فلسفے اور ڈرامے کا آدمی تھا جو فکری طور پر ارسطو کے قبیلے سے ہے۔ شاعری اور آرٹ سے غیرمعمولی شغف نے اسے Laocoon لکھنے پہ مجبور کیا۔

لیسنگ بلامبالغہ یونانی مجسمہ سازی، قدیم و جدید (اپنے دور تک کی) مصوری اور شاعری کو خوب سمجھ چکا تھا اس لئے شاعری اور آرٹ پر اس کے قلم سے مرتب ہوئی تنقید کی سطریں بعد میں آنے والوں کے لئے Criticism کا اہم جزو قرار پائیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ”ارسطو سے ایلیٹ“ میں اس تصنیف Laocoon میں سے فقط باب نمبر 16 کا ترجمہ کیا اور وہ بھی نقص سے خالی نہیں۔ مثلاً اگر آپ انگریزی متن کو سامنے رکھے بغیر پڑھیں تو آپ کسی صورت حاصل گفتگو تک نہیں پہنچ سکتے۔

ایسا نہیں کہ ڈاکٹر جمیل جالبی اچھے مترجم نہیں البتہ اس تحریر کا ترجمہ عجلت پسندی کی نذر ہو گیا کیونکہ انھوں نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ لیسنگ لاؤکون کے مجسمے اور کہانی (شاعری) سے ادبی اصول اخذ کر رہا ہے۔ لیسنگ کی گفتگو لاؤکون کے مجسمے اور کہانی (شاعری) میں اہم فرق واضح کرنے سے شروع ہوتی ہے اور آفاقی سطح پر ادب اور آرٹ کو سمجھنے کی فہم عطا کرتی ہے۔

لیسنگ نہ صرف شاعری اور مصوری میں موازنہ کرتا ہے بلکہ دونوں کی افادیت اور اہمیت بھی واضح کرتا ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی الفاظ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں جن سے گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ دیباچے کا نقطۂ اولیں : لیسنگ کا نظریہ ہے کہ مصوری اور شاعری دونوں سراب پیدا کرتی ہیں اور سراب ادب دوست افراد کے لئے پرلطف ہوتا ہے۔

”The first who compare poetry with painting was a man of fine feeling — He perceived and then represent absent thing as a present, give us the appearance as the reality. Both produce illusion, and the illusion of both is pleasing.“

دوسرا نقطۂ آغاز خوبصورتی (beauty) ہے لیسنگ کے نزدیک جن اجسام میں خوبصورتی ہو ان کے پیچھے ہمیشہ فطری قوانین کارفرما ہوتے ہیں۔

”Our first idea which is derived from corporeal objects, has universal law“

تیسرا نقطہ اور لطیف ترین نقطہ کہ بعض افراد شاعری کو اظہار کا عمدہ اور کامل ذریعہ سمجھتے ہیں اور بعض مصوری کو مگر حقیقت یہ ہے کہ شاعری مصوری کے ابہام کو ختم کرتی ہے اور مصوری شاعری کے دھندلے اور غیر فصیح پن کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔

”Pondering upon the value and distribution of these laws, found that some obtained more painting other in poetry: therefore poetry can come to aid of painting: in regard of the former, painting to the aid of poetry by illustration and example.“

اس لئے نقاد آج تک کہتے آ رہے ہیں کہ ”مصوری خاموش شاعری ہے اور شاعری بولتی مصوری“ اس قول کے بارے میں مصدقہ طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس کا ہے کیونکہ یہ مختلف فلسفیوں کے ہاں مختلف الفاظ میں پایا جاتا ہے۔

لاؤکون سریع التاثیر ادبی اقوال زیریں سے مملو تصنیف ہے ہر باب کے پہلے پہلے جملے پورے باب کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ باقی تفصیل انہی جملوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ مثلاً پہلے باب کا خلاصہ یہ ہے کہ یونانی مجسمے اور شاعری ہر عہد میں رائج آرٹ میں جگہ کیسے بنائے ہوئے ہے تو اس کی وجہ سادگی اور سلیقہ ہے۔ ایسی سادگی جو سقم کے بغیر ابلاغ کرتی ہے اور ایسا سلیقہ جس میں غیر ضروری عناصر موجود نہیں ہوتے۔

دوسرے باب کا جوہر یہ ہے کہ تخلیق محبت کی محتاج ہے اور محبت ہمیشہ ”نقل“ کرنے والے فنون (imitative arts) میں ظہور پذیر ہونے کی سعی کرتی ہے۔ آرٹ میں Vulgar تخلیق بھی قطعاً ناقابل قبول نہیں کیونکہ خوبصورتی تو بہ ہر حال اس نمونۂ تخلیق میں بھی موجود ہوتی ہے البتہ لیسنگ انھیں beauty of inferior types کہتا ہے۔

تیسرا باب ”سچائی“ اور ”اظہار“ کو ہر فن کا بنیادی جوہر بتاتا ہے۔ البتہ جس طرح فطرت اپنی خوبصورتی کو بڑے مقاصد کی تکمیل کے لئے قربان کرتی ہے اسی طرح ایک فنکار اپنے مقصد کے لئے ”سچائی اور اظہار“ کو اتنا ہی قربان کریں جتنا یہ اجازت دیں :

”As nature always sacrifices beauty to higher ends, so should the artists subordinate it to his general purposes and not pursue it further than truth and expression allow.“

(چوتھے باب کا خلاصہ) مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں جذبات سے لبالب تحریر کے لئے آپ فطری قوانین کی بلی چڑھا دیں۔

”Nothing is more deceptive than the laying down of general laws for our emotions. There is in nature no single, unmixed emotions.“

آٹھویں باب میں شاعری اور مصوری کا مقدمہ بناتے ہوئے Spence کو نقل کرتے ہیں جس کے نزدیک شاعری اور مصوری ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے چلنے والے فنون ہیں مگر شاعری کا کینوس مصوری سے زیادہ کشادہ ہے۔

”That poetry has the wider sphere, that beauties are within her reach which painting can never attain,“

اگلا باب Anne Claude de Caylus پر تنقید کا باب ہے جو مصوری کو شاعری سے ارفع فن سمجھتا تھا۔ Caylus کہتا تھا کہ مصور شاعری کے سقم مٹاتا ہے اور ”نقل“ کو انسان کے سامنے اصل کی صورت میں پیش کرنے کی قدرت رکھتا ہے البتہ اگلے چار ابواب میں لیسنگ اس نظریہ کو قوی دلائل سے مسترد کرتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ قاری کے ذہن میں بننے والی تصویر متحرک تصویر ہوتی ہے اس لئے شاعری زیادہ بہتر ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر شاعر دو طرح کے انسان دکھاتا ہے ایک وہ جو visible ہیں اور ایک وہ جو invisible ہیں تو مصوری کے لئے اسے ایک کینوس پر تخلیق کرنا بڑا چیلنج ہے۔ مثلاً باب نمبر پندرہ میں لیسنگ نے وضاحت کی کہ شاعر بعض اوقات ظاہری آنکھ سے نہ دیکھی جانے والی چیزوں میں لطف کا عنصر چھپا سکتا ہے مگر اسے اب کینوس پر کیسے اتارا جائے! ۔ Dryden کی نظم ”Ode on Cecilia ’s Day“ اس کی ایک مثال ہے جس کو قطعاً بنایا نہیں جا سکتا۔

باب نمبر سولہ میں شاعری اور مصوری کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے۔ مصوری میں رنگوں کی مدد سے اشارے signs تخلیق کیے جاتے ہیں۔ مصوری اشاروں کی درسگاہ ہے (مثلاً اگر کوئی شخص فون سنتا دکھائی دینا مقصود ہو تو ضروری نہیں کہ اس کا فون پوری طرح دکھایا جائے۔ بس اس کا ہاتھ کان کے ساتھ لگا ہو۔ ) اشارے اور وہ چیز جس کے لئے اشارہ تخلیق کیا گیا ہے دونوں ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں البتہ یہ ساکن منظر کو قید کرنے تک محدود ہے۔ اس کے برعکس شاعری سلسلہ وار اشاروں سے ایک خاص عمل کو پیدا کرتی ہے اس لئے متحرک معلوم ہوتی ہے۔ نتیجتا یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ شاعری عمل action ہے اس لئے ہدایت کا ذریعہ بھی اور مصوری فقط اجسام bodies ہیں۔ مصوری بھی اجسام کو خاص اشارہ دے کر عمل واضح کر سکتے ہیں لیکن متحرک نہیں دکھا سکتی۔

”Consequently, painting too can imitate actions but, only by suggesting through bodies. Painting can use only a single moment of action.“

بیسواں باب: خوبصورتی کے لئے شاعری میں قریب کا تلازمہ استعمال کرنے ضروری ہے یعنی ہم آہنگی harmonious effect کو ناگزیر حد تک ضروری ہیں اسی طرح مصوری میں اگر خوبصورتی دکھانا مقصود ہے تو لیسنگ کہتا ہے کہ ایک نظر میں چیزوں کا احاطہ کرنے والے منظر کے تمام اجزا ساتھ ساتھ بنائے جائیں یہی مصوری کی تلازمہ کاری ہے۔

بائیسواں باب میں وہ ایک عاقل شاعر اسے کہتا جو خوبصورتی کو ایسے آہنگ میں بیان کرے جس میں تفصیل سے بیان کرنا تقریباً ناممکن ہو اسی طرح اچھا مصور بھی انہی اصولوں پر چلتا رہے تو اپنی جگہ بنا پاتا ہے۔ اس طرح لیسنگ روایتی آہنگ کا منکر ثابت ہوتا ہے کیونکہ سچے فنکار کو فنون کی عمیق فکریں ایسے تجربات کرنے پر ابھارتی ہیں نہ کہ کیے ہوئے تجربات سے مدد لینے پر:

”For as the wise poet showed us only in its effects the beauty which he felt the impossibilities of describing in detail, so the equally wise painter exhibited beauty solely through its detail, deeming it unworthy of his art to have resource to any outward aid.“

اس سے اگلے باب (23) میں لیسنگ کہتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مصوری اور شاعری میں ایک عنصر تخلیق میں موجود ربط کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی سبب سے تخلیق میں خوبصورتی موجود ہونے کے باوجود اسے ugly بھدا کر دیتا ہے۔

”A single incongruous part may destroy the harmonious effect of many beauty, without however making the object ugly. Ugliness requires the presence of several incongruous parts which we must be able to take in at a glance if the effect produced is to be the opposite of that which we call beauty.“

بھدا پن یا ہم آہنگی سے خالی چیز کبھی شاعری کا موضوع نہیں ہو سکتی۔ دوسری صورت : اگر بھدا پن harlmess ہو تو یہ مزاح میں تبدیل ہو سکتا ہے مگر hurtful ugliness خوفناک ہوتی ہے۔

اس کتاب کے کل 29 باب ہیں اور باقی کے Winkel Mann کے فنون سے متعلق مطالعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لیسنگ نے اپنی آرا کو حتمی قرار نہیں دیا لیکن ابھی تک تنقید کے میدان میں لیسنگ کی کتاب اہم سمجھی جاتی ہے۔

اس تصنیف کو Ellan Frothingam نے ترتیب دیا اور شروع میں اپنی رائے شامل کی کہ:

– ”The art (poetry and painting) themselves differ both in the object and in the method if their imitation. But as if no such difference existed many modern critics have drawn the crudest conclusion possible from this agreement between poetry and painting. At one time they confine poetry within narrower limits of painting and at another allow painting to will the whole wide sphere of poetry— whatever is right in one must be permitted to the other; whatever pleases or displeases in one is necessarily pleasing or displeasing in the other.“

میں بھی اعتراف کرتا ہوں کہ یہ ایک مشکل کتاب ہے مگر جس حد میں اس کو سمجھ سکا ہوں لکھ چکا ہوں۔ پوری کتاب کا ترجمہ کرنا مقصود نہیں اس تنقید کی اہم کتب کی سمجھ بوجھ لکھنا مقصود ہے تاکہ اپنے سینئیرز سے اس پر اصلاح لی جا سکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments