گدھ اور گڑیا: صفیہ بی بی ریپ کیس


وہ ایک ماٹی کی گڑیا تھی، عام گڑیوں سے کئی لحاظ سے بہت مختلف۔ اس کے پاس تن، ذہن، اور روح سب تھا لیکن ایک چیز کی کمی تھی۔

تیرہ سال کی اس ماٹی کی گڑیا سے مشقت کروانا ضروری تھی۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جاکر اپنے ننھے منے نازک ہاتھوں سے محنت کرنے لگی۔ حواس خمسہ میں ایک حس کی کمی کے باعث گڑیا کی چھٹی حس بہت تیز ہو گئی تھی۔ یہ چھٹی حس ہی اکثر اس کی رہنمائی کرتی۔

گڑیا کے ارد گرد گدھ منڈلا رہے تھے۔ وہ اس گڑیا کو پوری جوان ہونے کے لئے صبر نہیں کر سکتے تھے۔ ماٹی کی گڑیا ان کے وجود کو آس پاس محسوس کر سکتی تھی، بوٹیاں نوچنے والے گدھ جن کو زندوں یا مردوں کو نوچنے سے آکسیجن ملتی ہے، ان کے نفس کی بھوک کی تسکین ہوتی ہے، ان کی کوئی شہوانی ضرورت پوری ہوتی ہے۔

آخر کار ایک گدھ نے اس ماٹی کی گڑیا پہ حملہ کیا، اس کو توڑ دیا، اس کی روح کو چیر دیا، کلی کو پھول بننے سے پہلے ہی مسخ کر دیا۔ ماٹی کی گڑیا اپنا تحفظ نہیں کر سکی، خود کو گدھ کے پنجوں سے آزاد نہیں کرا سکی، چیختی رہی، چلاتی رہی، روتی رہی لیکن وہ تو محض ایک گڑیا تھی۔ اب دوسرے گدھ کی باری تھی، یہ سوچ کر کہ اس گڑیا کی ایک حس کم ہے یہ تو اسی قابل ہے کہ اس کی چونچ اس کے نرم گرم تن کو لیرا لیرا کر دے۔ ماٹی کی گڑیا بار بار مرتی رہی، پاش پاش ہوتی رہی، آنسوؤں کا سیلاب تو پہلے ہی بہہ چکا تھا، وہ صرف سسکتی رہی، آواز بھی نکلنا بند ہو چکی تھی۔

ماٹی کی گڑیا کی دنیا تو پہلے ہی تاریک تھی اب اس کی دنیا میں اندھیرا گھپ تھا، کہیں سے بھی روشنی کی کی ایک کرن بھی اس کے آنگن سے نہیں گزر سکتی تھی۔

ٹوٹی ہوئی اس گڑیا کے مفلس گھر والوں نے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ بند رہا۔ کچھ لکھے پڑھے لوگ مدد کے لئے آ گئے تو دروازہ کھل گیا، کارروائی شروع ہو گئی، فارم بھرے گئے، رپورٹیں درج کی گئیں، انگوٹھوں کے نشانات ثبت کر دیے گئے۔

کالے گاؤن میں وکیل آ گئے۔ گدھوں کے وکیل نے گڑیا سے مبینہ قیامت خیز واقعہ کے دیکھنے والے چار گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ چار گواہ! گڑیا کہاں سے لاتی؟ گدھوں کو کیا ضرورت تھی کہ جسم کی لوٹ کھسوٹ سے پہلے مجمع جمع کرتے۔ گڑیا کے وکیل نے گدھوں کا ڈی این نے لینے پہ اصرار کیا لیکن جواب صرف ایک ہی ملتا رہا۔ قانون سائنس کو نہیں مانتا، اس کو جرم ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔

ماٹی کی ٹوٹی ہوئی گڑیا کچھ نہ کر سکی۔

گڑؑیا جھوٹی تھی، بد چلن تھی، بے غیرت تھی، خود کو گدھوں کے حوالے کرنے کی ذمہ دار تھی۔ گدھ معصوم تھے، با عزت بری ہو گئے، نیک باوقار غیرت مند شہری۔ گدھوں کی گردنیں اور اونچی ہو گئیں۔ دوسرے گدھوں نے انہیں ہار پہنائے، مٹھائیاں بانٹیں، جشن منایا۔

گڑیا کے ٹکڑوں پہ بد چلنی کا مقدمہ چلا اور اسے سزا سنا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ گڑیا تاریکیوں کے گہرے سمندر میں روز مرتی اور مر مر کے جیتی رہی۔

سلاخوں اور اونچی دیواروں کے پیچھے جو گڑیا پہ گزر رہی تھی وہ تو کوئی بھی نہیں جانتا۔ جاننے کے بھی کیا ضرورت تھی وہ تو اب خاندان کے نام پہ دھبہ اور معاشرے کے لئے ناسور تھی، اس کا سارا وجود ناپاک تھا، سراسر پلیت!

ماٹی کی نازک گڑیا تڑپ تڑپ کے ریزہ ریزہ ہوتی رہی، گدھ گڑیوں کو شکار کرتے رہے، گدھوں کا راجہ بہشت کے حصول کے اور قریب ہو گیا اور قوم کو انصاف بانٹنے کی اہمیت پہ تبلیغ کرتا رہا۔

حوالہ
سنہ انیس سو بیاسی، صفیہ بی بی کیس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments