پتوکی واقعہ: لاشوں کو نوچنے والے گدھ


اشرف نام رکھا گیا تھا۔ نیک تفاؤل یہی تھا کہ معاشرے میں شرف پا سکے گا۔ عزت و قار سے جئے گا۔ اشرف نے شرف قائم رکھا اور غربت کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے، چوری اور ڈاکا ڈالنے کے بجائے مزدوری کو ترجیح دی۔ لیکن کیا خبر تھی کہ یہی غربت اس کا قصور بن جائے گی۔ سینکڑوں لوگوں کے بیچ مارا جائے گا لیکن کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ اس ہجوم میں کوئی رجل رشید نہیں ہو گا جو ظالموں کا ہاتھ روک سکے۔ شک کی بنا پر شغل ہی شغل میں ایک انسانی جان چلی گئی۔

لیکن ان انسان کہلانے والوں میں انسانیت کی اتنی سی رمق بھی باقی نہیں تھی ایک مزدور کو قتل کرنے کے بعد اس کی ننگی لاش کو ڈھانپ سکتے۔ پتوکی میں شادی کے موقع پر باراتیوں کے ہاتھوں مرنے والے ایک پاپڑ فروش مزدور اشرف کی لاش معاشرے کا ننگ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ لش پش کرتے جوڑے پہنے، خوش گپیوں میں مصروف لاش کی موجودگی میں کھانے سے لطف اندوز ہونے والے سینکڑوں افراد کا مجمع کسی صورت انسان کہلانے کا حق دار تو نہیں ہاں انہیں نعشوں کو نوچنے والے گدھ ہیں ضرور کہا جا سکتا ہے۔

دنیا میں کتنے ہی انسان ایسے ہیں جن کے تن پر لباس نہیں ہوتا اور کتنے لباس ایسے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے اس معاشرے میں ایسے لباس بڑھتے جا رہے ہیں جن کے اندر انسان نام کی کوئی مخلوق موجود نہیں ہوتی۔ اشرف کے چہرے پر بھنبھناتی مکھیاں دراصل اس معاشرے کے چہرے پر بھنبھناتی جہالت، کم ظرفی، تذلیل اور بے شرمی کی مکھیاں ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مکھیاں روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر کاروبار سیاست چمکانے والے بے حس اور جذبات سے عاری روبوٹ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاست مدینہ کی بنیادی اینٹ ہی شرف انسانی کے قیام کی تھی۔ جہاں معاملہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا ہو یا غلاموں کی تذلیل کا، بات گھریلو تشدد کی ہو یا عورتوں کی کمتری کی۔ ریاست مدینہ کے بنیادی اصول شرف انسانی قائم کرتے گئے اور ایک فلاحی ریاست مستحکم ہوتی چلی گئی۔

صد حیف کہ معاشرے میں تشدد کے رویے کو ایک منظم طریق پر پروان چڑھایا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم کے عمل کو جاری کر کے عدم برداشت اور عدم رواداری کو بڑھاوا دیا گیا۔ صرف عقیدے کی بنیاد پر سینکڑوں معصوموں کی جان لی گئی لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا اور سلسلہ ابھی بھی تھما نہیں۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

اب جس تیزی کے ساتھ اجتماعی قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ایک خونخوار درندے کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جہاں کسی کو قتل کرنا اس کی نعش کی بے حرمتی کرنا، گھسیٹنا، جلانا مردوں پر تشدد کرنا، نعش کو درخت سے لٹکا دینا، پور پور کو توڑ دینا، جب تک جسم کی آخری ہڈی سلامت رہے تشدد کرتے چلے جانا۔ عام ہوتا جاتا ہے۔ جیسے ہر کسی کو یہ اجازت نامہ تھما دیا گیا ہو کہ جہاں مرضی اسے استعمال کرتا پھرے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

آج دنیا بھر میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ اجتماعی قتل کے جتنے واقعات پاکستانی معاشرے میں ہو رہے ہیں اور جس شرح سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے کیا کسی اور معاشرے میں بھی ایسا رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔ ایک بار پھر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کہلانے والے کتنے معاشرے آج ریاست مدینہ جدید بنانے کے دعویدار بن کر کاروبار ریاست و سیاست چمکا رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments