معاشرے میں دانشمندوں کا کیا کام ہوتا ہے


جس اسکول کی میں بات کرنے لگا ہوں وہ پاکستان کا سب سے بڑا اسکول سسٹم ہے، ملک بھر میں اس کی شاخیں ہیں، لاکھوں بچے ان برانچوں میں پڑھتے ہیں، پاکستان سے باہر بھی اس کے کئی کیمپس ہیں اور یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ اسکول انگریزی میڈیم ہے اور اس کی ماہانہ فیس پچیس سے تیس ہزار روپے ہے۔ جو لوگ اس کی انتظامیہ میں شامل ہیں، وہ رات دن اپنے دفاتر میں یوں مصروف رہتے ہیں جیسے وال سٹریٹ کا کوئی بروکر اسٹاک مارکیٹ میں ہونق ہوا پھرتا ہے جہاں اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔

اس پورے اسکول سسٹم کو چلانے کے لیے درجنوں شعبے قائم ہیں جن کے الگ الگ ڈائریکٹر ہیں اور جن کے نیچے درجنوں ماتحت کام کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ آئے روز میٹنگز کرتے ہیں، عجیب و غریب پریزنٹیشن بناتے ہیں، پورے ملک میں پھیلی ہوئی اسکول کی شاخوں کے دورے کرتے ہیں اور واپس آ کر انگریزی میں رپورٹیں لکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہیڈ ماسٹرز اور اساتذہ کے کام کی پڑتال کا بھی کوئی نہ کوئی طریقہ کار وضع کر رکھا ہے اور بظاہر یہ بچوں کے والدین سے بھی گاہے بگاہے رائے لیتے رہتے ہیں۔ یہ سارا کام نجی شعبے میں ہو رہا ہے لہذا ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب خانہ پری ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس ساری دھماچوکڑی کے باوجود اسکول کے زیادہ تر بچے ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہیں، انہیں کلاس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ ناکافی ہے، اسکول کے اساتذہ کا حال یہ ہے کہ وہ بچوں کا ہوم ورک بھی ڈھنگ سے نہیں دیکھ سکتے، غلطیاں نکال کر درست کرنا جو ایک استاد کا کام ہوتا ہے عرصہ دراز سے ناپید ہو چکا ہے اور رہی بات اخلاقیات کی تو اس کا جنازہ نکلے مدت ہوئی۔

اسکول کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور اگلی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہارورڈ بزنس ریویو کا ایک مضمون نظر سے گزرا جس کا لب لباب یہ تھا کہ جو لوگ فٹنس سینٹر جاتے ہیں ان کا مقصد جم میں موجود مشینوں کو تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھنا یا اپنے ٹرینر سے گپ شپ کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کو صحت مند رکھنے کے لیے وہاں کسرت کرنے جاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ بیماری کی صورت میں معالج سے وقت لے کر ملتے ہیں ان کا مقصد ڈاکٹر سے محض نسخہ لینا یا لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانا نہیں ہوتا بلکہ ان کا اصل مقصد صحت یاب ہونا ہوتا ہے۔ اور جو لوگ کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں ان کا بنیادی مقصد نصابی کتابیں خریدنا، امتحان دینا یا اعلیٰ گریڈ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہنرمندی اور مہارت کے حصول کے لیے وہاں جاتے ہیں تاکہ اپنے کیرئیر میں کامیاب ہو سکیں۔ گویا اصل بات بنیادی مقصد ہے جو ہر لمحے سامنے رہنا چاہیے۔

اگر ملک کے سب سے بڑے اسکول سسٹم کے طلبا جماعت میں دیے جانے والے لیکچر سے غیر مطمئن ہو کر ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہو جائیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ اسکول اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ کر انتظامی بھول بھلیوں میں الجھ گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اکثر لوگ زندگی میں مسرت کے حصول کی بنیادی خواہش کو فراموش کر کے لاحاصل دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اور کیسے ان کی زندگی بے کیف ہو گئی۔ گویا زندگی میں بنیادی مقصد کا ہونا ضروری ہے باقی سب فروعی باتیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بنیادی مقصد کیا ہونا چاہیے؟ کیا کوئی ایسا مقصد بھی ہو سکتا ہے جس پر تمام انسان متفق ہو جائیں؟ یا ہر انسان اپنے مقصد کے چناؤ میں آزاد ہے؟ اور اگر آزاد ہے تو کیا یہ مقصد محض عیاشی کرنا بھی ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری زندگی کا واحد مقصد عیش عشرت میں ڈوبے رہنا ہے تو ایسے انسان کو آپ کیا کہیں گے؟ اور پھر کچھ دانش مند لوگ تو یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ زندگی میں کسی بھی قسم کے مقصد کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو بندہ ’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ ‘ پھر مقصد ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے! حقیقت لیکن یہ ہے کہ جو انسان زندگی کی بے مقصدیت کا پرچار کرتے ہیں خود ان کی زندگی کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، اور کچھ بھی نہ ہو تو یہ پرچار کرنا ہی ان کی زندگی کا مقصد سمجھا جاتا ہے۔

جس طرح انسان زندگی میں اپنے مقصد کے حوالے سے ابہام کا شکار ہو کر الجھ جاتا ہے اسی طرح بعض اوقات معاشرے بھی اپنے مقاصد یا اہداف کے تعین میں غلطی کر کے ناکام ہو جاتے ہیں۔ اسی اسکول کی مثال پر واپس آتے ہیں۔ اسکول کا بنیادی مقصد معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔ ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھنے والے اس ملک میں جج، جرنیل اور سیکریٹری بنے، وجہ یہ تھی انہیں استاد اچھے ملے لہذا اس بات سے فرق نہیں پڑا کہ ان کے اسکول کی عمارت عالیشان تھی یا نہیں۔ جس اسکول کی مثال میں نے دی اس کی عمارت بھی شاندار ہے اور کلاس روم میں ائر کنڈیشنر بھی لگے ہیں مگر استاد کا معیار وہ نہیں جو عمارت یا ائر کنڈیشنر کا ہے۔ چنانچہ اصل مقصد کہیں فوت چکا ہے۔

معاشروں پر بھی یہ مثال منطبق ہوتی ہے۔ جو معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے ابہام کا شکار ہو، اس کی سمت کا تعین نہیں ہو پاتا اور وہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔ معاشرے میں یہ کام دانش مندوں اور فلسفیوں کا ہوتا ہے، وہ اپنے افکار کے ذریعے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں کس قسم کا سوشل کنٹریکٹ بنانا چاہیے، ریاست اور فرد کا تعلق کیسا ہونا چاہیے، انسانی آزادی کی حدود کیا ہونی چاہئیں، قوانین کس قسم کے ہونے چاہئیں، وغیرہ۔ جو ممالک آج ہمیں ترقی یافتہ نظر آتے ہیں ان کے پیچھے انہی فلاسفہ کی سوچ تھی جس کی بنیاد پر کہیں انقلاب آیا اور کہیں ترقی کی راہیں کھل گئیں۔ امریکہ کے لیے یہ کام تھامس پین نے کیا، روس کے لیے جیورجی پلاکانوف، فرانس کے لیے والٹیئر اور روسو نے اور برطانیہ کے لیے ایڈمنڈ برک نے کیا۔

اس بات کا بھی امکان تھا کہ ان فلاسفہ میں سے کسی کے افکار معاشرے میں ترقی اور آزادی کی بجائے بربادی کا سبب بن جاتے یا ان افکار کی تشریح درست نہ کی جاتی جیسے کہ جرمنی میں ہوا۔ نطشے کے فلسفیانہ نظریات ہٹلر کے ہتھے چڑھ گئے اور اس نے خود کو سپر مین تصور کر کے جرمنی کو کھنڈر بنا دیا۔

یہاں وہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ معاشرے میں یہ احساس کیسے بیدار کیا جائے کہ اس کی سمت درست نہیں یا وہ اپنے مقصد کے حصول میں ابہام کا شکار ہے۔ جرمنی کے کیس میں یہ احساس چھ کروڑ انسانوں کی موت کے بعد پیدا ہوا۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر مرتبہ یہی بھاری قیمت چکائی جائے؟ اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ اول تو ہم پچھتر برسوں میں اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کرسکے کہ ہم چاہتے کیا ہیں، نہ کوئی دانش ور ملا نہ کوئی فلسفی جو ہمیں بتاتا کہ معاشرے کو کس ڈگر پر چلانا ہے۔ اور جس ڈگر پر ہم اپنی سمجھ کے مطابق چلے اس کے نتائج ہم نے بھگت لیے مگر سمت درست کرنے پر اب بھی تیار نہیں۔

سمت درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ گزشتہ پچھتر برسوں میں ایوب خان کے صدارتی نظام سے لے کر جنرل ضیا کے اسلامی نظام تک جتنے تجربے ہم نے اس ملک میں کیے وہ سب ناکام تھے، کیونکہ اگر ایسا ایک بھی تجربہ کامیاب ہوتا تو اس کے ثمرات ہم تک ضرور پہنچے۔ جو ثمرات پہنچے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں تھے۔ سمت درست کرنے کا دوسرا مرحلہ وہ ہو گا جب ہمارے معاشرے کے دانشمند اور فلسفی یہ بتائیں گے کہ معاشرے کی بنیاد کن اصولوں پر رکھی جانی چاہیے یا کم ازکم جب ہم دنیا کے ان دانشوروں کے افکار سے استفادہ کرنا شروع کر دیں گے جن کے نظریات کی بدولت ترقی یافتہ ممالک نے وہ نظام تشکیل دیا جسے ہم آج رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا حال بھی اس بچے جیسا رہے گا جو اسکول تو جاتا ہے پر کچھ سیکھ کر نہیں آتا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments