خواہش مرگ میں مبتلا مردار معاشرہ


پچھلے دنوں پتوکی میں ایک پاپڑ فروش کو تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد لاش کو سامنے رکھ کر کھانے کی ویڈیو نے مذمتوں کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ مذمت کرنا بری بات نہیں، مگر یہ اس وقت کی جاتی ہے جب معاشرہ ایک وحشی حرکت کو بری سمجھے۔ جب معاشرے سے اچھا یا برے کا تصور ہی ختم ہو جائے تو مذمت چہ معنی دارد۔ ہم تووہ معاشرہ ہیں جہاں پہ انسانیت سوز اعمال ہمارے احساسات پہ کوئی اثر نہیں چھوڑتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ متشدد سوچ اور اس کے نتیجے میں ہونے والا تشدد ہمارے زندگی کا معمول کا حصہ بن گیا ہے۔

معروف خاتون فلاسفر ہننا اعرند Hannah Arendt نے اس مظہر کو Banality of Violence (تشدد کا عامیانہ پن) کا نام دیا۔ انھوں نے اسی نام سے ایک کتاب لکھی جو جنگی جرائم کے نازی ملزم ایڈولف آئیخمن کا اسرائیلیوں کے ماتحت مقدمے کی روداد اور اس کی فلسفیانہ اور نفسیاتی تشریح پر مشتمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آئیخمن ارجنٹائن میں روپوش تھا مگر اسرائیلی ایجنٹ انھیں اغوا کر کے اسرائیل لائے اور ان پر1961 میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا گیا۔

اعرند کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے کارروائی کے دوران آئیخمن کی باتوں سے کسی مطلق بدی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ یوں لگتا تھا کہ لاکھوں انسانوں کا انسانیت سوز قتل کسی مافوق مطلق شیطان نے نہیں بلکہ ایک عام انسان کے ہاتھوں ہوا ہے جو دوسرے انسانوں کی طرح کھاتا پیتا، سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ تشدد کے اس رویے کا معمول کی زندگی اور شخصیت بننے کے عمل کو ہی ہنا اعرند banal یا عامیت کا نام دیتی ہے۔

اس وقت کا پاکستانی معاشرہ آئیخمن کی ذہنیت کی عکاسی کر رہا ہے۔ آئیخمنتو ایک فوجی تھا مگر یہاں عام فرد وحشی حرکتوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ایک معصوم سری لنکن کا سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونا اور آگ لگانے کا عمل کیا ہے؟ کیا اس عمل کا ارتکاب کوئی جہنم کی قید سے آزاد شیطان کر رہے تھے؟ نہیں۔ یہ تو میرے اور آپ جیسے نارمل انسان تھے جو اس انسان کو قتل کے بعد لاش کو آگ ایسے لگا رہے تھے جیسے کہ وہ چائے بنانے کے لیے چولا جلا رہے ہوں۔

ایک ہندو نو عمر لڑکی اغوا کرنے کی کوشش پر مزاحمت کرتی ہے تو گولی ماری جاتی ہے، مگر ہم اسلام کے نام پر خاموش رہتے ہیں کیونکہ ہندو لڑکی کے جسم پر اس کی نہیں ہماری مرضی ہے۔ اسی طرح پتوکی ؛کے پاپڑ بیچنے والے کی لاش کو فرش پر رکھ کر سارے باراتی بشمول بچے ایسے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں جیسا کہ کیلے کا کوئی چھلکا نیچے گرا ہو۔ اسے آدم خوری نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے گھناونے حرکات ہمیں کیوں نہیں جھنجوڑتے ہیں؟ اس کے وجہ یہ ہے کہ ہم نے کسی دل خراش واقعے پر اخلاقی دھچکا محسوس کرنے کی صلاحیت ہی کھودی ہے۔ اب پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صلاحیت کس وجہ سے کھو دی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی اقدار مردار ہو گئے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ مردار سے کیا مراد ہے؟ چلو آگے چل کر اس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقدار کے مردار ہونے سے مراد مردہ ہونا ہے۔

اور مردہ موت کی علامت ہوتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی زندگی کو دو جبلتوں کے عمل کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ ایک کو وہ خواہش حیات/زندگی (Eros) اور دوسرے کو خواہش مرگ/موت (Thanatos) قرار دیتا ہے۔ خواہش حیات کی جبلت زندگی اور ذات کی تحفظ کرتی ہے اور اس کا مقصد تخلیق اور چیزوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ جبکہ خواہش مرگ کی جبلت تخریب اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر مرگ کی جبلت شخصیت کے اندر کی طرف مڑ جاتی ہے تو تخریب ذات کا سبب بنتی ہے۔ بعد جب یہی جبلت باہر کی طرف مڑتی ہے تو یہ جارحیت، تشدد اور بے ہنگمی کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے اور عوام کے رویوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم میں موت کی جبلت اب اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ یہ ہم کو تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا عمرانی معاہدہ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔ جب عمرانی معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے تو انسان جنگل کی زندگی کی طرف مراجعت کر جاتا ہے جہاں پہ جنگل کا قانون ہی رائج ہوتا ہے۔ یوں تمدن کے آخری باقیات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ جبلت مرگ کی وجہ سے اب ہم لوگ معاشرتی حیوان نہیں بلکہ معاشرتی آدم خور بن چکے ہیں۔

موت اور زندگی کی یہ جبلتیں ہمارے معاشرے میں عملی طور پر کار فرما ہیں۔ اس کے لیے ہمیں کسی بڑے نفسیاتی واردات یا کیس کو مثال کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارے روزمرہ کے حرکات و سکنات اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ جب ہم اپنے سیاسی معاملات میں فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعرے معمول کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تو ہم مرگ و حیات کے انہی جبلتوں کے زیر اثر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ روزمرہ کی یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ہم میں موت کی جبلت اتنی بھر گئی ہے کہ اب ہم میں زندگی کی خواہش کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔

اب درج ذیل مثالوں کو لے لیں اور فیصلہ کریں کہ ہم میں حیات کے رمق باقی ہے یا موت کا خبط سوار ہے۔ شادی خواہش حیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک عمل یا جنسی ارتفاع کی ایک ثقافتی شکل ہے۔ ہم اس کو بندوقوں اور کلاشنکوفوں کے فائرنگ سے مناتے ہیں۔ یہی حرکت ہم لڑکے کی پیدائش جو کہ ایک تخلیقی عمل ہے میں فائرنگ کر کے کرتے ہیں۔ بندوق کو موت کی جبلت نے ایجاد کیا ہے اور ہم نے اس کو اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ جب آپ موت کو سینے سے لگائیں گے تو زندگی دم ہی توڑ جائے گی۔

حد یہ ہو گئی ہے کہ ہماری جمالیات تک بھی خواہش مرگ کی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو گئی ہے۔ یوں ہمارے حسین نظارے وہ نظارے بن گئے ہیں جن میں موت اپنے آب و تاب سے جلوہ گر ہوتی ہو۔ ہمیں باڈی گارڈ میں گھرا بندہ بہادر لگتا ہے۔ جنگی جہاز اور ٹینک پھولوں اور پرندوں سے بھی خوبصورت شے لگتے ہیں۔ پنسل کے ڈیزائن سے زیادہ میزائل پیارا لگتا ہے۔ اور ہم ان ہتھیاروں کو اپنے گھروں میں کیلنڈروں کی صورت میں سجاتے ہیں۔ ہماری سڑکیں اور چوراہے کے نام جنگجووں کے نام پر ہیں۔

قتل و غارت ہمارے لیے ایک دلچسپ ویڈیو گیم ہے۔ ایٹم بم ہماری پہچان اور بندوق ہماری غیرت ہے۔ جلتا ہوا چرچ اور مندر ہمارے ایمان کی آگ کے روشن رہنے کی علامت ہے۔ خیام کی رباعی جگہ ہمارے پاس مولوی ہے، رومی کی مثنوی کی جگہ خودکش حملہ آور ہے اور حافظ کی غزل کی جگہ فتوی ہے۔ جب ہمارے دل و دماغ موت کے پروانوں اور خیالات سے بھرے ہوں گے ، تو ہم ایسے مردہ اقدار ہی پیدا کر سکتے ہیں جو ہمیشہ زندگی کی نفی کرتے ہیں اور موت کا جشن مناتے ہیں۔ موت کے ایسے متوالے معاشرے کا انجام بہت عبرتناک ہوتا ہے کیونکہ تاریخ میں اس کو تاریک دور کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ اس کو تاریک اس لیے کہا جاتا ہے کہ تاریکی میں ڈوبا ایسا معاشرہ اندھیرے میں رہنے والے بلائیں پیدا کرتا ہے جوہر قسم کے خواب، ارمان اور تخیل کو کھا جاتا ہے۔

یہ جو معاشرتی اقدار کی بات کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مردہ لاش کو اپنے کندھے پر اٹھائے اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مردہ کبھی آپ کو آنکھیں اور زندگی نہیں دے سکتا ہے۔ اگر جینا ہے تو خواہش حیات پیدا کیجیئے ورنہ زندگی بے مردگی کی عالم میں موت کے سائے میں گزار لو گے۔

مصنف افکار کے تاریخ کے قاری ہیں سماجی فلسفے کے طالب علم ہیں۔
پینٹنگ میں انگلستان کے مشہور پاگل خانے بڈلام میں پاگلوں کے ایک تھیٹر کی منظر کشی کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments