ہم کون تھے، ہم کون ہیں


ہم دنیا کا سب سے پرانا سماجی اور معاشی نظام تھے، ہمارا ہر گاؤں ایک کمیون تھا، ہر گاؤں ازخود اپنی بنیادی ضروریات زندگی میں خودکفیل تھا، بنیادی ضرورت کے ہنر مند اور پیشہ ور جیسے بڑھئی، لوہار، جولاہے، کمہار، موچی، نائی، قصائی، تیلی وغیرہ ہر گاؤں میں موجود ہوتے تھے اکثریت کسانوں اور اس کے بعد چرواہوں کی ہوتی تھی یہ پیشے یا ہنر ضرورت اور مہارت کی بنیاد پر کوئی بھی سیکھ اور اپنا سکتا تھا نا ہی ان پر کسی کی اجارہ داری تھی اور نا ہی اس کی بنیاد پر کوئی قوم یا ذات تشکیل پاتی تھی البتہ ان کی آپس میں ایسوسی ایشن ضرور ہوتی تھی

ہاں یہی ہمارا طبقاتی نظام تھا جو اونچ نیچ کی درجہ بندی پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ناگزیر ضرورت پر مبنی تھا اور شراکت اتنی کہ ہمارے یہاں خاکروب کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا کیونکہ کوئی چیز ضائع ہی نہیں کی جاتی تھی حتیٰ کہ جانوروں کا فضلہ تک کھیتوں میں کھاد کے کام آتا تھا، اور مساوات اتنی کہ کبھی عورت کو کبھی الگ صنف کے طور پر نہیں گنا جاتا تھا ہماری عورت معاشرتی اور معاشی طور پر فعال اور ہمارے برابر کی شریک کار تھی

غلے اناج کے ساتھ سبزیاں، گوشت، دودھ، گھی، پنیر، ایندھن، ہر موسم کے الگ الگ پھل اور پانی وغیرہ سب دستیاب اور وافر تھے، جہاں دریا یا نہریں نا تھے وہاں کنویں اور رہٹ اور بارش کے ذریعے کاشتکاری کی جاتی ہے، فصلوں کی بوائی اور کٹائی میں سارا گاؤں ایک دوسرے کا مددگار تھا اور اس کا معاوضہ انہی اجناس کی صورت ادا کر دیا جاتا تھا یوں ہر چیز کم یا زیادہ ہر ایک کی دسترس میں تھی، امیر غریب کا فرق اگر کم سے کم کہیں تھا تو وہ یہیں پر اسی خطے میں تھا

کیونکہ ہر آبادی اپنی ہر احتیاج میں خودمختار تھی اس لئے اسے دوسروں سے رابطے یا تجارت کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی اس لئے کوئی مرکزی نظام نا تھا کوئی باقاعدہ ریاست یا رجواڑے نا تھے کوئی مرکزی حکومت نا تھی جو ہم سے محصولات نچوڑ کر بڑے محلات یا تعمیرات کرتے، کچھ لوگ نسبتاً زیادہ خوشحال ہوتے بھی تھے تو وہ صرف کچھ بڑے یا پختہ گھر یا مقبرے ہی بنا سکتے ہیں اس ہی لئے ہمارے یہاں قدیم ترین تمدن کیے آثار تو موجود ہیں لیکن بڑی بڑی دیوہیکل عمارات کے کھنڈرات موجود نہیں ہیں

ہماری اپنی زبان تھی جو کشمیر سے کیٹی بندر اور پشاور سے دہلی تک بولی اور سمجھی جاتی تھی، ہمارے اپنے لباس تھے جو ہمارے موسم کے مطابق تھے ہمارے اپنے پکوان تھے، ہماری اپنی صنعت و حرفت تھی حتیٰ کہ ہمارا اپنا کیلنڈر تھا جو دنیا میں چند ہی اقوام کے پاس ہے جو کہ ہمارے ہر فرد کو زبانی یاد ہوتا تھا جس کے مطابق ہم اپنا کاروبار زندگی چلاتے تھے، فصلیں اگاتے تھے اور اپنے تہوار مناتے تھے ہاں ہمارے اپنے تہوار جو زندگی کو مسرت سے سرشار کرتے تھے اور سخاوت کی ترغیب دیتے تھے اور ہمارے اپنے جسمانی طبیب تھے جو مقامی دو اؤں سے اور روحانی حکیم تھے جو دائمی سچائیوں پر مبنی افکار سے ہمارے مسائل کا حل تجویز کرتے تھے

اور ہمارے محاورے ہمارے موسموں اور مزاج کے مطابق اور ہماری کیفیات کے ترجمان تھے ہم عاشق تھے ہم شاعر تھے ہم اور ہماری ہوائیں گیت گاتے تھے، ہم زندگی کے ہر رنگ کی ترنگ تھے ہم یک رخے، یک رنگ نا تھے بلکہ ہم متنوع تھے ہم رنگین تھے ہم رنگدار تھے، ہم طاقتور تھے پر ہم نے کبھی جارحیت نہیں کی تھی، ہم دلیر تھے پر ہم ظالم اور قاتل نہیں تھے

ہاں یہ ہم تھے جن کا حسن ان کا دشمن بن گیا
ہاں یہ ہم تھے جب تک ہم نے اونٹ کو اپنے خیمے میں دعوت نہیں دی تھی
ہاں یہ ہم تھے جب تک ہم نے انگور کی بیل کیکر پر نہیں چڑھائی تھی
ہاں یہ ہم تھے جب تک ہم نے اپنے مخمل پر ٹاٹ کا پیوند نہیں لگایا تھا
ہاں یہ ہم ہی تھے جب تک ہم نے دوسروں کا نقاب اپنے چہرے پر لگا کر خود کو بے چہرہ نہیں کیا تھا
ہاں یہ ہم ہی تھے جب تک ہم گونگے نہیں ہوئے تھے اور جب تک ہم نے خود اختیاری بے زبانی قبول نہیں تھی
ہاں یہ ہم ہی تھے جب تک کسی کی محبت کے جھانسے میں آ کر خود فراموش نہیں ہوئے تھے

ہاں یہ ہم تھے جو اپنی اس عدم مرکزیت کی وجہ سے غول در غول امڈ کر آنے والے منظم قاتلوں کے لشکروں اپنی حفاظت نا کر سکے کیوں کہ ہم سمجھتے رہے کہ جب ہم کسی پر قبضہ نہیں کر رہے تو کوئی دوسرا ہمیں کیوں ستائے گا ہمیں ہمارے بقائے باہمی پر یقین رکھنے والے بزرگوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اگر تم کتے کو نہیں کاٹتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کتا بھی تمہیں نہیں کاٹے

اور وہ بتاتے بھی کیسے کیونکہ ان کے مسلک میں تو نفرت جرم تھی اور خوف بے معنی شے تھی جبکہ ان دونوں کے بغیر دفاع کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا

ہاں یہ ہم ہی ہیں جن کے اپنے چہرے مسخ کیے جا چکے لیکن ہم دوسروں کا مذاق اڑاتے نہیں کیونکہ کوئی ہمیں آئینہ نہیں دکھا رہا اور ہم خود سے اپنا بگڑا چہرہ دیکھ نہیں پا رہے

ہاں یہ ہم ہیں کہ جنہیں احساس زیاں سے بھی عاری کر دیا گیا ہے

لیکن ہاں پھر بھی یہ ہم ہی ہیں جو گھاس کی طرح روندے جاندے کے بعد ہر نئی بارش اور ہر نئی بہار میں پھر سے نمو پاتے ہیں

لیکن ہاں یہ ہم ہی ہیں جو بیج کی طرح دفن ہو کر پھر نئی شروعات سے اگ اٹھتے ہیں
ہاں یہ ہم ہیں جو ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جی اٹھتے ہیں

ہاں یہ ہم ہی ہیں جنہیں اسٹار فش کی طرح پانچ ٹکڑوں میں بھی تقسیم دو تو اس کا ہر ٹکڑا دوبارہ سے نئی اسٹار فش بن جاتا ہے

لیکن اس بار ہم پر حملے کا نیا طریقہ ڈھونڈا گیا اب ہمیں کھلی جارحیت کا نہیں بلکہ خاموش دشمنوں کا سامنا ہے

اب ہمیں اندر سے ایک دیمک لگائی جا رہی ہے جو ہمیں چاٹ کر راکھ کرنے میں مصروف ہے اور جو ہماری روح ہم سے چھین رہی ہے

اس باہر سے ایک امر بیل ہم پر مسلط کر دی گئی ہے جو ہماری رگوں کو چوس کر ہماری حیات کی قیمت پر ہری بھری ہو رہی ہے اور ہمارا چہرہ اور نقوش ہی بدل رہی ہے

اب ہمارے نسل کشی نہیں بلکہ شناخت کشی کی جا رہی ہے

استاد نے مجھے جب بتایا کہ ہم ”گریٹ سروائیورز“ ہیں تب میں نے دل میں سوچا کہ ہاں ضرور اگر اس بار ان دونوں یعنی اس اندرونی دیمک اور بیرونی امر بیل سے بچ گئے تو ،

اگر اس دام ہمرنگ زمین سے بچ گئے تو
لیکن ہم سخت جان ہیں اور امید، یقین اور ہمت پر دنیا قائم ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).