امربالمعروف کا درس دینے والا، اور بھسما سر


قدیم ہندو شاستروں میں ہندو مت کے بھگوان شری وشنو کے زمانے کے ایک شیطان بھسما گیری کا قصہ بہت مشہور ہے جو بھسما سر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”ایک شخص تھا جو بڑا ذہین تھا وہ دیوتاؤں کی شکتیاں (طاقتیں ) حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بھسما گیری نے سالہا سال اس کے لیے کڑی محنت کی، چلے کاٹے، مشکلات و تکالیف برداشت کیں، پھر اسے اپنی ان محنتوں کا پھل ملا اور ہندوؤں کے بھگوان شوجی اس کے سامنے آئے، دیوتا شوجی کو اپنے سامنے دیکھ کر بھسما گیری نے ان سے اپنی سالہا سال کی عبادتوں کا پھل مانگا اور کہا کہ اسے دنیا بھر کی طاقت عطا کریں تو شوجی نے اسے ایک ایسی شکتی عطا کی جس کی وجہ سے وہ جس کے بھی سر پہ ہاتھ کر کہتا ’بھسم‘ تو وہ جل کر بھسم ہو جاتا۔

دیوتا شوجی کی عطا کردہ اس شکتی کے ملتے ہی بھسم گیری جب جسے چاہتا اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بھسم کر دیتا اور پھر اسی طرح اس کی شیطانیت اور شر بڑھتا گیا ساتھ ساتھ اس کا تکبر اور گھمنڈ بھی اپنے عروج پر پہنچنے لگا، اس کے اس بڑھتے خوف اور فساد نے اسے بھسما گیری سے بھسما سر بنا دیا۔ بھسما سر اپنی اسی طاقت شیطانی قوت کے نشے میں ایسا چور ہوا کہ اس نے طے کر لیا کہ وہ بھگوان شوجی کو ہی بھسم کر دے گا اور ان کی پتنی ( بیوی) پاروتی سے شادی کرے گا۔ جب وہ شوجی کو بھسما سر کے ارادوں کا پتا چلا تو وہ اس مسئلے کا حل لے کر ہندو مت کے ایک اور بھگوان وشنو جی کے پاس پہنچے، وشنو جی نے ایک اپسرا کا روپ دھار کر بھسما سر کو اپنے جال میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے ہی سر پہ ہاتھ رکھ بیٹھا اور بھسم ہو گیا ”

اس چھوٹی سی مختصر کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کے اندر میں اسی طرح کا ایک بھسما سر یا متکبر گھمنڈی چھپا بیٹھا ہے جو چاہتا ہے کہ اسے ہر وقت طاقت ملے جس کے ذریعے وہ دنیا میں سب کچھ حاصل کر سکے، جسے چاہے جب چاہے مغلوب کر سکے، جب چاہے جسے چاہے اپنے طابع کر سکے یا پھر اسے ختم کردے اس کی آواز کو دبا دے، مخالفین کو اپنے سامنے گھٹنوں کے بل لا کھڑا کر دے یا انہیں صفحہ ہستی سے ہی مٹا دے۔ آج ہمارے ملک پہ بھی ایک ایسا ہی بھسما سر قسم کا حاکم برسر اقتدار ہے جو 26 سال تپسیا کرتا رہا، چلے کاٹتا رہا، لوگوں کو ان کے احساس محرومی کا جھانسہ دلا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتا رہا، اور اسی کوشش میں بالآخر اسے کامیابی ملی اور ملک کے تمام طاقتوں نے اسے ملک کے عوام کا مسیحا سمجھا اور وہ تمام طاقتیں اور اختیارات جن کی وہ خواہش رکھتا تھا اسے بلا شرکت غیرے عطا کر دیے۔

عوام بھی بہت خوش تھے کہ ایک ایسے حاکم کو حق حکمرانی ملا ہے جو ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردے گا۔ جو جو وعدے دعوے اس نے کیے وہ پورے کرے گا، کیونکہ اس نے اپنے آقاؤں اور عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی ہتھیلیوں پہ چاند رکھ دے گا، پلک جھپکتے ہی سارے مسائل، مشکلات و آلام کو ختم کردے گا۔ مگر عوام کی یہ خوشیاں اور امیدیں اس وقت خاک میں ملنے لگیں جب ان کے مسیحا حاکم نے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کیا، پہلے دن سے ہی اپنے ہر کہے لفظ کے الٹ کرنا شروع کیا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بے گھری ختم کرنے سے لے کر کرپشن ختم کرنے تک، اقربا پروری ختم کر کے میرٹ کا نظام رائج کرنے سے لے کر ملکی اداروں کی تنظیم نو کرنے اور ان میں اصلاحات لانے تک، سب باتیں صرف باتیں ہی رہ گئیں، تمام دعوے وعدے آج بھی وفا ہونے اور پورے ہونے کے منتظر ہیں۔

پاکستان کے تبدیلی پسند، ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کے خواہشمند کی تمام خواہشات بھسما سر کی خواہشات کی مانند لگ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب نے بھی اقتدار، طاقت اور اختیار لوگوں کو بھسم کرنے، ملک کا سیاسی، جمہوری اخلاقی اور معاشی قریہ کرم کرنے اور اپنی مادی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے چاہا تھا۔ آج سے ستائیس اٹھائیس برس پہلے ملک کی بڑی معتبر و معزز ہستیوں نے جن یہودی سازشوں کا خدشہ اپنی کتابوں میں کیا شاید انہیں سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہی ہمارے حاکم نے 26 سال کا چلا کاٹا تھا۔

خان صاحب کی کڑی اور کٹھن تپسیا سے متاثر ہو کر جن طاقتوں نے انہیں دیویوں دیوتاؤں والی شکتیاں دلوانے میں اہم کردار ادا کیا خان صاحب آج انہیں طاقتوں کو بھسم کرنے کے درپے ہیں۔ اپنی نا اہل نالائق طرز حکمرانی کے بجائے کبھی غیرملکی قوتوں کو مورد الزام ٹھہرا کر انہیں مغلظات بکتے ہیں تو کبھی اپنے محسنوں کے خلاف دشنام طرازی کرتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پہ تحریک انصاف کے کارکنان اور چاہنے والے ملک کے مقتدر قومی اداروں، سیکیورٹی فورسز کی اعلیٰ قیادت کے خلاف اخلاق باختگی کی تمام حدود پھلانگ چکے ہیں ایسے میں بھسما سر نے امربالمعروف کا نعرہ بلند کر دیا ہے جس کا مطلب ہے کسی واجب یا مستحب کام کی دعوت دینا، جس شخص نے معاشرے کی اخلاقی قدروں کی دھجیاں بکھیر دی ہوں، گالم گلوچ، دشنام طرازی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہوں اس کے زبان سے یہ صدائیں بڑی مضحکہ خیز لگتی ہیں۔

انسان کے قول اور فعل کا تضاد کبھی کبھی اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا، ایک طرف آپ امربالمعروف کا نعرہ لگا کر عوام کو واجب و مستحب کام کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف بھسما سر کی طرح شوجی کو ہی بھسم کرنے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھے ہیں، تو جناب ایسا ممکن نہیں ہے، لگتا ہے قصے کہانیاں میں ایک اور بھسما سر کا اضافہ ہونے جا رہا ہے جو اپنے تکبر رعونت اور گھمنڈ کی انتہاؤں کو پہنچ کر اب اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی نالائقیوں نا اہلیوں کی وجہ بھسم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments