چند بددعائیں جو ریاستِ مدینہ کا حکمران دینا بھول گیا


دنیا کے مختلف خطوں سے معرکہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ میں شریک ہونے اور نفاذ ”امر بالمعروف“ کے لئے مجاہدین کے قافلے جوق در جوق سلطنت اسلامیہ الباکستان کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کی جنگی اسٹریٹجی سے آشنا خبر نگار بتاتے ہیں کہ سلطنت اسلامیہ الباکستان پہنچ کر ان قافلوں کے سربکف مجاہدین بنی گالہ میں قیام و طعام کریں گے اور پھر ان میں سے ایمانی جذبہ سے سرشار چند منتخب جری مجاہدین کو مختلف جتھوں کی کمان سونپی جائے گی اور اسلام آباد کی طرف روانہ کیا جائے گا اور تلواروں، تیر کمانوں، بھالوں، منجنیقوں سے لیس یہ سرفروشان ملت راہ میں آتی ہر کفر و الحاد کی نشانی کو نیست و نابود کرتے اور کشتوں کے پشتے لگاتے ریاست مدینہ کے میاں خلیفہ اور سپہ سالار اعظم کی معیت میں ڈی چوک کے میدان جنگ میں مستقلاً پڑاؤ ڈالیں گے اور اپنے رہبر اعظم کے کسی بھی دشمن کو نہ چھوڑیں گے، بالفرض کچھ بھی بچ بچا بھی گئے تو ان کا سماجی مقاطعہ کیا جائے گا، ان کے بچوں سے کوئی رشتے نہ کرے گا اور وہ سو فی صد کنوارے ہی مریں گے، ان راندہ درگاہ اور گستاخ لوگوں کو شادیوں میں صرف ”نیوندرا“ ڈالنے کے لیے بلایا جائے گا اور سزا کے طور پر ولیمے کا کھانا کھانے کی اجازت نہ ہو گی، ان کے پنکچرز سائیکلوں کو کوئی مستری پنکچر نہیں لگائے گا۔

ان کو دہی جمانے کے لیے کہیں سے ”جاگ“ لینے کی اجازت نہ ہو گی۔ ان کو ایزی لوڈ، وائی فائی، آن لائن شاپنگ اور اے ٹی ایم سے استفادے سے روک دیا جائے گا۔ یہ لوگ لائیو شو دیکھنے کے مستحق نہ ہوں گے، انہیں چلتی ٹرالی سے گنا کھینچنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ان کی حریم شاہ اور دانیہ شاہ کی ویڈیوز اور تصاویر تک رسائی ناممکن بنا کر ترسا ترسا کر مارا جائے گا۔ ان کے بچے پیمپرز نہیں پہن سکیں گے اور ان کے بڑوں کو لڑائی کے دوران سخت، بڑی اور شہباز گل جیسی گالی دینے کی قطعاً بھی اجازت نہ ہو گی۔

یہ کسی کا ”نک نام“ نہیں لے سکیں گے، کسی کو چھیڑ نہیں سکیں گے۔ یہ تندور سے تازہ روٹی اور نان لینے کے حق دار نہیں ہوں گے۔ یہ سردیوں میں فریج اور گرمیوں میں اے سی اور کولر نہیں چلا سکیں گے۔ انہیں موٹروے کا سفر منع ہو گا اور میٹرو بھی، یہ پیچھے مڑ کر دیکھ نہیں سکیں گے۔ انہیں اڑتے جہاز کو منہ نیچے کر کے کسی ندی یا دریا ہی میں دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ یہ کھیرا صرف ”ثبوتا“ کھا سکیں گے کاٹ نہیں سکیں گے۔ انہیں پگھلی قلفی ملے گی اور گرم فالودہ، یہ دکان سے چینج نہیں لے سکیں گے۔

انہیں ڈور کے بغیر پتنگ اڑانے کی اجازت ہو گی۔ یہ ہر خوبصورت لڑکی کو صرف ”بہن“ کہہ کر مخاطب کیا کریں گے۔ انہیں فٹ پاتھ استعمال کرنے کی قطعاً بھی اجازت نہ ہوگی بلکہ یہ سڑک کے صرف بیچ ہی میں چل سکیں گے۔ یہ گورا کرنے والی کوئی کریم بھی نہیں لے سکیں گے۔ انہیں نہاتے ہوئے جسم پر صابن ملنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ سموسوں کے ساتھ چٹنی اور ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی اور مکھن استعمال کرنے کے اہل نہ ہوں گے۔ انہیں اپنی گاڑیوں کے ساتھ اسٹپنی رکھنے کی اجازت نہ ہو گی۔

یہ ایمرجنسی میں 1122 کو نہیں بلا سکیں گے۔ یہ مرد ہوں گے تو جم نہ جاسکیں گے اور عورتیں پارلر، یہ کلف لگے کپڑے پہننے سے محروم ہوں گے اور بالوں میں خضاب سال میں صرف ایک بار اور وہ بھی اپنے کسی سگے رشتے کی شادی پر لگا سکیں گے۔ انہیں سالن صرف ایک بار ہی ملے گا اور ”سپلی“ کی بالکل بھی اجازت نہ ہوگی۔ یہ جہاز کا سفر کھڑے ہو کر کیا کریں گے۔ انہیں خوبصورت بیوی کی اجازت نہ ہوگی ہاں خوبصورت ملازمہ رکھ سکیں گے تاکہ انہیں اپنے کردہ گناہوں کا احساس شدت سے ہوتا رہے۔

یہ مچھلی کو کانٹے نکال کر نہیں کھا سکیں گے۔ انہیں بریانی بغیر بوٹیوں کے ملے گی۔ انہیں جوتوں کو پالش کروانے کی اجازت نہ ہو گی۔ یہ گرمیوں میں بند جوتے موٹی جرابوں کے ساتھ پہنیں گے اور سردیوں انہیں بند بوٹ اور کوٹ پہننے کی اجازت نہ ہوگی۔ انہیں سبزی کے ساتھ دھنیا اور سبز مرچیں فری میں نہیں دی جائیں گی۔ انہیں کوئی سر، صاحب، میڈم، چودھری، میاں، مہر، خان وغیرہ نہیں کہا کرے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں انہیں یا تو سب سے پیچھے بٹھایا جائے گا یا پھر چھت پر۔

یہ ٹی وی پر کسی اداکارہ یا ماڈل گرل کو دیکھتے ہی سکرین سے منہ دیوار کی طرف کر لیں گے۔ یہ چھوٹا گوشت اور چکن کسی فنکشن میں ہی کھا سکیں گے اور وہ بھی ضلعی انتظامیہ کی خصوصی اجازت کے بعد ۔ یہ دودھ سوڈا بغیر دودھ کے پی سکیں گے۔ یہ پرائز بانڈز اور انعامی پرچیاں خریدنے کے اہل نہ ہوں گے۔ یہ کسی جوان اور حسین خاتون کو نہ تو ایم ایم ایس کریں گے اور نہ ہی کوئی ویڈیو کال، یہ لفٹ کی بجائے صرف سیڑھیاں استعمال کرسکیں گے۔

یہ بخار میں پیناڈول نہیں لے سکیں گے بلکہ کسی پیرنی سے صرف دم کرا کر اپنا علاج کرا سکیں گے۔ یہ دفتروں میں کرسیوں کی بجائے موڑھے استعمال کیا کریں گے۔ انہیں عوامی مقامات پر اپنی مونچھوں کو ”وٹ“ دینے پر ایک ماہ سزا اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ انہیں سوئمنگ پول میں نہانے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ صرف ”کھوہ دا پانی“ ہی سوئمنگ کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ انہیں لڑائی کے دوران کسی کو مکا، تھپڑ مارنے اور گالی دینے کی اجازت نہ ہو گی۔

یہ کسی کو بددعا نہیں دے سکیں گے۔ انہیں لو میرج کی اجازت نہ ہو گی۔ یہ اپنے بچوں کو پارک نہ لے جا سکیں گے اور نہ ہی انہیں بچوں کو کارٹون دکھانے کی اجازت ہو گی۔ یہ چائے کے ساتھ بسکٹ نہ کھا سکیں گے۔ یہ ”کھرک“ کا علاج نہیں کروا سکیں گے۔ یہ ”پت“ نکلنے پر جسم پر پاؤڈر نہیں مل سکیں گے۔ انہیں پرفیوم لگانے کی بھی اجازت نہ ہو گی۔ یہ باتھ روم میں ڈائریکٹ ٹوٹی سے نہائیں گے اور انہیں شاور لگانے کی اجازت ہو گی لیکن استعمال کرنے کی بالکل بھی نہیں۔

یہ بالوں کو کنگھی نہیں کر سکیں گے۔ انہیں ”کتا پڑنے“ پر کوئی بھی کتی حرکت یعنی بھاگنا، وٹا شٹا یا ڈانگ سوٹا مارنے کی بالکل بھی اجازت نہ ہو گی۔ یہ کسی کو اس کا نام لے کر نہیں پکارا کریں گے بلکہ صاحب یا میڈم کہا کریں گے۔ یہ صرف گہرے سرخ، کالے یا پیلے رنگوں والے کپڑے ہی پہنا کریں گے۔ انہیں باتھ روم میں بھی گنگنانے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ آنکھوں میں کاجل یا سرمہ نہیں ڈال سکیں گے۔ انہیں جمپ آنے پر گاڑی آہستہ کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments