موروثی سیاست کا خاتمہ ضروری!


ملک میں سیاسی و آمریتی ادوار کا جائزہ لے لیں سات دہائیوں سے زائد کی مسافت طے کرنے والے پاکستان کے عوام کی حیثیت حکمرانوں کی نظر میں صرف ایک ووٹرز سے زیادہ نہیں رہی اسی لئے عوام ملک میں بننے والی ہر حکومت کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی طرز حکمرانی سے بیزار ہو جاتی ہے۔ یہ بڑی دلدوز حقیقت ہے کہ موروثی و روایتی سیاست نے عوام کو مہلک مسائل کے سپرد کر دیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں چند ایسے خاندان موجود ہیں جن کی قومی سیاست اور ملکی وسائل پر اجارہ داری قائم ہے ملک میں جاگیردارانہ ’سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر لی ہیں جن کو کریدنے کے لئے طویل عرصہ درکار ہے کیونکہ اس نظام نے جس موروثی سیاست کی بنیاد رکھ دی ہے اس کی اجارہ داری ممبران قومی و صوبائی اسمبلی تک محدود نہیں بلکہ مقامی حکومتیں بھی اس نظام کے زیر اثر ہیں۔

پاکستان میں موروثی سیاست کا اندازہ آپ اس رپورٹ سے لگا سکتے ہیں جس کے مطابق 1996ء امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً چھ فیصد تھا جبکہ بھارت کی لوک سبھا میں 2010ء تک اٹھائیس فیصد رہا اور پاکستان کے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موروثی سیاست کا حصہ 53 فیصد سے بھی زائد ہے کسی بھی جمہوری معاشرے میں موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔ جنرل ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات کو سامنے رکھ لیں ان انتخابات میں جو چہرے منتخب ہو کر آئے انہوں نے ہی سیاست پر اپنی اجارہ داریاں قائم کر لیں جس کے باعث موروثی سیاست نے سیاسی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور اس نظام کی بنیاد جاگیر دار خاندانوں نے رکھی اور اس کو مزید سرمایہ دار سوچ کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدانوں نے جلا بخشی جب سیاست میں دولت کا عنصر غالب آنے سے سیاست کاروبار بن گئی ہے۔

روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty is not Democracy میں لکھتی ہیں موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جب کہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سخت نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ اگر حکومت معاشرے میں دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو عملی شکل دے تو تب بھی یہ موروثی نظام کمزور پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ خاندانوں کی سیاست اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے کہ وہی آزمودہ چہرے وفاداریاں بدل کر ہر نئی بننے والی حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں اور حکومتوں میں رہ کر اپنے مفادات اور اقتدار کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی نظام کا اگر جائزہ لیا جائے تو موجودہ سیاسی نظام نظریاتی اساس پر قائم نہیں بلکہ نظریہ ضرورت پر اس کی بنیادیں استوار ہیں سیاستدانوں نے نظریہ ضرورت کے تحت مختلف بیانیوں میں عوام کو تقسیم کر کے ہمیشہ اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کو ہمیشہ دوام بخشا جس کے باعث خود ساختہ سیاسی نظام سے عوام بیزار نظر آتی ہے۔ المیہ ہے کہ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی قیادت عوام کو جمہوری ثمرات سے فیض یاب نہیں کر سکی اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان میں یہ آرٹیکل موجود ہے کہ روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت کی سہولیات عام فرد کو بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق کا یہ آرٹیکل آج تک معطل ہے ہمیشہ سیاستدانوں نے نعروں‘ وعدوں اور اعلانات کے بل بوتے پر اس عوام کے بنیادی حقوق پر شب خون مارا سیاسی تاریخ اس بات کی غماز ہے انسانی بنیادی حقوق ’وسائل اور اختیارات نے ہمیشہ ملک میں موجود سیاسی اشرافیہ کے در کا ہی طواف کیا اور عام فرد مسائل کی عمیق دلدل میں دھنستا چلا گیا۔

ملکی سیاست نے نسل نو کو سیاسی شعور سے آگاہی دینے کی بجائے غلامانہ سوچ اور آمرانہ رویوں کو پروان چڑھایا کسی بھی سیاسی جماعت کے تنظیمی نظام پر نظر دوڑا لیں سیاسی جماعتوں کے اندر ایسا ادارہ موجود نہیں جو کارکنان کی سیاسی شعور کی پختگی کے لئے کام کرتا ہو۔ موجودہ سیاسی نظام عوام کو فیصلہ سازی سے یکسر محروم رکھے ہوئے ہے جس کے باعث عوام تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوامی خواہشات کے مطابق کبھی اس ملک میں فیصلے نہیں کیے جاتے اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اقتداری طبقات نے ہمیشہ مفاد عامہ کے بر عکس فیصلے کر کے عام آدمی کو مزید مسائل کے گرداب میں دھکیل دیا۔

پاکستان کا سیاسی نظام موروثیت کی گرہ سے بندھا ہوا ہے چند جاگیر دار اور سرمایہ دار خاندان ملکی سیاست پر قابض چلے آرہے ہیں جو انسانی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جس کی نظریاتی اساس عوام کو طاقت کا سر چشمہ تسلیم کرتے ہوئے انسانی بنیادی حقوق بہم پہنچائے اگر موجودہ نظام میں عوام کی امنگوں کے مطابق اصلاحات نہ لائی گئیں تو یہ نظام ہماری آنے والی نسل نو کو غلامانہ سوچ کی زنجیر میں تو جکڑ سکتا ہے لیکن اسے جمہوری ثمرات سے محروم رکھتے ہوئے مہذب معاشرے کا فرد نہیں بنا سکتا۔

سیاسی نظام سیاسی موروثیت کے باعث عمل اور کردار کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا صرف مفاداتی سیاست ملکی سیاستدانوں کا وتیرہ رہی ہے جس کے باعث ملک میں جمہوری اقدار و روایات زوال پذیر ہیں۔ ملک پاکستان میں سیاسی اشرافیہ نے مغرب سے جمہوریت کا لفظ لے کر اس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام تو دیا لیکن بد قسمتی سے مغربی جمہوریت کو تقلید کا عملی جامہ نہ پہنا سکے دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ملک کا امیر ’امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا چلا گیا۔

یقیناً اس موجودہ سیاسی جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے ہماری نئی نسل پر خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوں گے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے سیاستدانوں میں حرص و لالچ کی جنگ اگر اسی طرح جاری رہی تو ملک میں جمہوری اقدار و روایات کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ملکی طرز سیاست کے باعث معاشرے میں افراتفری اور بے یقینی کی فضا قائم ہو چکی ہے اور ایسی صورتحال کسی بھی ملک و معاشرے کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

ملک کا سیاسی نظام بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے نظریہ ضرورت کے تحت ٹیسٹ ٹیوب سیاست نے سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تو تحفظ کیا لیکن عوام کے حصہ میں کچھ نہیں آیا یہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں عوام کے لئے کچھ نہیں اس لئے نظام کے از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے جمہوریت کے صحیح معنوں میں ثمرات عام آدمی کی دہلیز اسی صورت پار کر سکتے ہیں جب ملکی سیاست سے موروثیت کا مکمل خاتمہ ہو گا جب سیاسی و جمہوری نظام کو مفاد عامہ کے تحت ترتیب دے کر عملا نافذ کیا جائے گا۔ اگر موجودہ سیاسی و جمہوری نظام کو عوامی امنگوں کا ترجمان نہ بنایا گیا تو عوام کی خواہشات اس موروثی سیاست پر قربان ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments