خدا حافظ عمران خان


عمران خان بتا رہے ہیں کہ وہ عدم اعتماد سے ایک دن پہلے سرپرائز دیں گے اس کے پاس آخری پتہ رہتا ہے۔

جو سیاسی حالات ہیں وہ تو یہی بتاتے ہیں کہ عمران خان کے ہاتھ سے معاملات مکمل نکل چکے ہیں، تحریک انصاف کے ناراض اراکین تو اپنی جگہ، تمام اتحادیوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے، ممکنہ طور پر اتحادی 26 مارچ تک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کریں گے۔

سیاست تحمل، بردباری ایک دوسرے کو سننے اور باہمی احترام کے رشتوں کو ملحوظ رکھ کر آگے بڑھنے کا نام ہے، ایک سربراہ مملکت صبح، شام سیاستدانوں کو گالیاں دے، ان پر جملے کسے، بے ہودہ القابات سے نوازے، اپنے عہدے کے وقار سے بہت نیچے گر کر طرز گفتگو اپنائے، وہ اسی طرح تنہا رہ جاتا ہے جس طرح آج عمران خان تنہا کھڑے ہیں، جو لوگ اس وقت ان کے ساتھ ہیں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد دو چار کے سوا باقی دیگر بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

یہ سب ایک طرف، حکومت میں آنے سے قبل کتنے خواب بیچے گئے، ادارے ٹھیک کروں گا، نوے دن میں کرپشن ختم کروں گا، دو نہیں ایک پاکستان بنے گا، امیر غریب کے لیے ایک قانون ہو گا، پولیس نظام درست کیا جائے گا، باہر ملکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے نہیں لوں گا، کبھی انگلینڈ کے سماجی نظام کی مثالیں دیتا، کبھی یورپ کے کسی اور ملک کے قانون کے حوالے بیان کرتا، کبھی وزیر اعظموں کے سائیکل پر دفاتر جانے کی بات کرتا، گورنر ہاؤس گرانے اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے تک اس خواب بیچنے والے نے اس قوم سے کیا کیا جھوٹ نہ بولے، وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد پاکستان میں وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرنے سے جو انقلاب شروع ہوا وہ وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کے بیچنے پر ختم ہو گیا۔

بڑھکیں تھیں، تقریریں تھیں، قوم سے خطابات تھے، گالیاں تھیں، بد زبانی تھی، گالم گلوچ تھا۔ اس زنبیل میں اس کے علاوہ اور کیا تھا جو قابل بیان ہو۔

امریکہ کو آنکھیں دکھانے کی بات کرتا ہے، اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر روس کا دورہ کیا، جبکہ تعریفیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی کر رہا ہے، اگر آپ کے پاس آزاد خارجہ پالیسی ہوتی تو آپ کس طرح ہندوستانی خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے، ساڑھے تین سالوں میں کون سی آزاد خارجہ پالیسی تیار کی گئی ہے۔

گزشتہ حکومتی قرضوں پر لعن طعن کرتا رہا کہ مگر خود ساڑھے تین سالوں میں سابقہ دس سالوں میں لیے گئے قرضوں کا ریکارڈ توڑ گیا ہے

عمران کی شخصیت کی تشکیل کھیل کے میدان میں ہوئی ہے وہ سیاست کے میدان کے اصولوں سے ناواقف تھے سو ناکام رہے، گیارہ کھلاڑیوں کو سنبھالنے والا سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ 22 کروڑ لوگوں کو سنبھال پائے گا، سب کچھ خواب تھا اس لیے سراب ہی رہا۔

اس وقت اپوزیشن کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ کامیاب عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوئی ہے بلکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی کامیابی ان قوتوں کو سیاست میں مداخلت سے روکنا ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک اسے اپنا استحقاق سمجھتی رہی ہیں جس میں بدقسمتی سے بعض سیاسی راہنما بھی انہیں اپنا کندھا پیش کرتے رہے ہیں مگر اب کے بار تمام اپوزیشن نے ساڑھے تین سال متحد ہو کر ایک نکاتی ایجنڈے پر جدوجہد کی کہ ملکی سیاست کا کام سیاستدانوں کے لیے چھوڑا جائے اور جن کا کام ملک کا دفاع ہے وہ اپنا محاذ سنبھالیں، آج اس جدوجہد کا پہلا فیز کامیاب ہو چکا ہے اور مقتدرہ کا دست شفقت عمران خان کے سر سے ہٹ چکا ہے جس سے سیاسی تبدیلی ممکن ہو رہی ہے۔

اس خوش گمانی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ عدم مداخلت دائمی ہے اور ملک کا سیاسی نظام مکمل آزاد ہو چکا ہے ہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ سیاسی جماعتوں نے کامیاب جدوجہد کی بنیاد رکھی ہے جو ایک طویل المدتی جدوجہد کے لیے اچھی ابتداء ہے، امید کی جانی چاہیے کہ اگر یہ جدوجہد اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو ایک نہ ایک دن ملکی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا رول ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا جس کے لیے آنے والے پندرہ سے بیس سال اہمیت کے حامل ہیں بشرطیکہ سیاسی جماعتیں اس نکتے پر کبھی بھی کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔

حالیہ جدوجہد اور اس میں ہونے والی کامیابی کا سہرا تو تمام اپوزیشن جماعتوں کی قیادت اور ان کے نظریاتی کارکنوں کے سر سجتا ہے لیکن اس جدوجہد کا مرد میدان قائد جمعیت اور اس کے نڈر و بے لوث کارکنان ہیں جنہوں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں، ملین مارچز سے لے کر آزادی مارچ تک اور پی ڈی ایم کے قیام سے عدم اعتماد تک، تاریخی جدوجہد کی، قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم دیا اور ان کے درمیان فاصلوں کم یا ختم کر کے انہیں مربوط رکھا اور با الاخر اپنی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو گئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments