23 مارچ کا مطلب کیا، شاد رہے پاکستان


ایک کائناتی سچائی ہے کہ آج کے نمایاں ممالک ریاستی کنٹرول میں ہونے والے خون خرابوں کے بعد ہی معرض وجود میں آئے۔ مثلاً امریکہ میں اپریل 1861 ء سے لے کر مئی 1865 ء تک یعنی چار سال تین ہفتے چھ دن سول وار جاری رہی۔ امریکہ کی اس سول وار میں تقریباً دس لاکھ لوگ مرے اور تقریباً پانچ لاکھ لوگ شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ تب جاکر ابراہم لنکن کی کوششیں رنگ لائیں اور امریکہ کو امن نصیب ہوا۔ فرانس مئی 1337 ء سے اکتوبر 1453 ء تک یعنی 116 برس برطانیہ کے ساتھ کشت و خون کی ندیاں بہاتا رہا، پھر بھی آج کا فرانس نہ بن سکا۔

فرانس کو موجودہ خوبصورت روپ دھارنے کے لئے مشہور زمانہ انقلاب فرانس کے خونی دریا سے گزرنا پڑا۔ بدامنی اور خوان خرابے کا یہ دور مئی 1789 ء سے نومبر 1799 ء تک یعنی دس برس جاری رہا۔ انقلاب فرانس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 16 ہزار 5 سو 94 لوگوں کو قتل کرنے والی مشین گلوٹین کے ذریعے ذبح کر دیا گیا جبکہ تقریباً 40 ہزار قیدیوں، غلاموں اور دیگر لوگوں کو مقدمے چلائے بغیر اگلے جہان پہنچا دیا گیا۔ تاریخ کو لہولہان کر دینے والی اس جنگ و جدل کے بعد بالآخر نپولین نے فرانس کو امن کا راستہ دکھایا۔

چین کی ماڈرن تاریخ میں دو ادوار میں سول وار کی صورت میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ پہلی مرتبہ اگست 1927 سے دسمبر 1936 ء تک یعنی 9 برس 4 ماہ چینی لوگ موت کی آغوش میں سانس لیتے رہے۔ دوسری مرتبہ مارچ 1946 ء سے مئی 1950 ء تک یعنی 4 برس 1 ماہ چینیوں کا خون بہتا رہا۔ ان دونوں عہدوں میں تقریباً 8 ملین یعنی 80 لاکھ چینی سول وار کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس قیامت خیز بدامنی کے بعد چین کا امن وجود میں آیا۔ عیسائیوں کے مقدس شہر ویٹی کن سٹی اور یورپ کے درمیان واقع اٹلی میں ماڈرن ہسٹری کی سول وار ستمبر 1943 سے مئی 1945 ء تک یعنی ایک سال آٹھ ماہ جاری رہی جس میں تقریباً 81 ہزار اطالوی لوگ جان کی بازی ہار گئے۔

پھر موجودہ امن والے اٹلی کی بنیاد شروع ہوئی۔ سابق سوویت یونین کو بنانے میں نومبر 1917 ء سے اکتوبر 1922 ء تک روس کی ریاستوں کی گلیوں محلوں میں ریڈ آرمی اور وائٹ آرمی کے درمیان پانچ برس دست بدست لڑائی جاری رہی۔ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے باعث ایک اندازے کے مطابق تقریباً 15 لاکھ باشندے سوویت یونین بنانے کی خواہش میں لقمہ اجل بنے۔ ٹیکنالوجی کے بادشاہ جاپان نے بھی سول وار کی صورت میں خون کی دلدل پار کی۔ وہاں جنوری 1868 ء سے جون 1869ء تک یعنی ڈیڑھ برس زندہ انسانوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہا۔

اس بربادی میں تقریباً 8 ہزار 2 سو جاپانی مارے گئے اور تقریباً 5 ہزار شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ جرمنی کی سول وار کو نومبر ریوولیوشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد نومبر 1918 ء سے اگست 1919 ء تک جاری رہی۔ اس میں سینکڑوں غیر مسلح سویلینز مارے گئے، شدید زخمی یا اپاہج ہوئے۔ جمہوریت کے بادشاہ برطانیہ کی سول وار کو انگلش سول وار کہا جاتا ہے جو اگست 1642 ء سے ستمبر 1651 ء تک جاری رہی۔ اس میں سیاست دانوں، اپر کلاس لینڈ لارڈز اور شاہی سورماؤں کے درمیان تلواریں اور گولیاں چلتی رہیں۔

نو برس کی اس سول وار میں تقریباً 1 لاکھ 27 ہزار برطانوی سویلینز اور مسلح افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ آج کے یورپ کا خوبصورت ناروے 1130 ء سے 1240 ء تک یعنی 110 برس جاری رہنے والی سول وار کی بھٹی میں جلتا رہا۔ ناروے کی اس سول وار میں کئی بادشاہ، شہزادے اور سپہ سالار قتل ہوئے جبکہ لاکھوں نارویجن باشندوں کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ جنیوا اقوام متحدہ کے دفاتر کا شہر ہے۔ یعنی اس شہر میں امن و آشتی کا پیغام دینے والے بین الاقوامی دفاتر موجود ہیں۔

جنیوا سوئٹزر لینڈ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سوئٹزر لینڈ بھی سول وار کی تpش سے بچ نہ سکا۔ تین نومبر 1847 ء سے 29 نومبر 1847 ء تک یعنی 26 روز جاری رہنے والی اس سول وار میں درجنوں سوئس شہری ہلاک، شدید زخمی اور اپاہج ہوئے۔ اس کے علاوہ کینیڈا، ارجنٹائن، یونان، چلی، آسٹریلیا، آئرلینڈ، فن لینڈ، پرتگال، سپین، نیوزی لینڈ، برازیل، میکسیکو، ملائیشیا، پولینڈ، رومانیہ، کوریا، سوڈان، ویتنام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، لبنان، سری لنکا، جارجیا، یوگوسلاویہ، بوسنیا، تاجکستان، چیچنیا اور نیپال وغیرہ جیسے ممالک کی ہسٹری میں بھی سول وارز کے دلخراش خونی باب درج ہیں جبکہ عراق، شام، افغانستان، بھارتی مقبوضہ کشمیر، فلسطین، صومالیہ، میانمار اور یمن جیسے کئی خطوں میں سول وار کی صورت میں انسانی خون پینے کا سلسلہ اب بھی ختم نہیں ہوا۔

انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک سول وار جمہوریت کے چیمپئن بھارتی آبا و اجداد کے درمیان لڑی گئی۔ اس کا ذکر ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت میں موجود ہے۔ یہ سول وار اقتدار کے لئے بھارتی کزنوں کے درمیان پری ہسٹری دور یعنی 5561 سے 3102 قبل مسیح کے درمیان کسی زمانے میں ہوئی جو کہ 18 دن تک جاری رہی۔ اس میں تقریباً 39 لاکھ 36 ہزار 6 سو بھارتی اقتدار کی ہوس کی قربان گاہ پر چڑھا دیے گئے۔ ہسٹری یہ بھی بتاتی ہے کہ برصغیر میں اشوکا، مغل، خلجی، برٹش، تغلق، لودھی، غوری، غزنوی، سوری، مرٹھا اور سکھ شاہی وغیرہ سمیت سب سلطنتیں خونریز جنگوں اور سول وارز کے بعد ہی قائم ہوئیں۔

مذکورہ بالا تاریخ کے لال صفحات کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جس کو بنانے میں ریاستی سطح پر انسانی خون نہ بہایا گیا ہو لیکن پاکستان اقوام عالم میں شاید وہ واحد ملک ہے جو پرامن طریقے سے محض ایک قرارداد کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ 23 مارچ 1940 ء کی قرارداد لاہور سے لے کر 14 اگست 1947 ء کو پاکستان بننے تک پرامن تحریک چلی۔ ریاستی سطح پر منصوبہ بندی کے تحت کسی قسم کا کوئی خونی تشدد نہیں ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی باہمی آمدورفت کے دوران جو قتل و غارت ہوئی وہ ریاستی سطح پر نہیں تھی بلکہ انفرادی اور مقامی گروہی سطحوں پر تھی۔ تاریخ کا حساب کتاب لگانے والے نجومیوں کے نزدیک یہ بات ایک معجزے سے کم نہیں ہونی چاہیے کہ قتل و غارت اور خون خرابے کے بغیر صرف ایک قرارداد کی بنیاد پر ایک نیا ملک بن گیا۔ اس کے بعد 1956 ء میں 23 مارچ کے دن ہی پاکستان کا پہلا آئین اپنایا گیا۔ آئین بھی امن کی کتاب کو ہی کہا جاتا ہے۔

لہٰذا ملک بنانے کی قرارداد اور ملک کو چلانے کے لئے آئین اپنانے کے باعث پاکستان کا خمیر امن سے ہی ابھرا۔ قرارداد مقاصد اور آئین کی بالا دستی کی ان پرامن تاریخوں کو یادگار بنانے کے لئے 1956 ء سے پاکستان کی مسلح افواج نے 23 مارچ کو ہی پریڈ منعقد کرنا شروع کی۔ دفاع امن کا دوسرا نام ہے۔ جس ملک کا دفاع مضبوط ہو گا وہاں امن بھی پائیدار ہو گا۔ اسی لئے اس برس یعنی 2022 ء میں 23 مارچ والے تاریخی پرامن دن کا تھیم بھی خاص طور پر امن سے جوڑا گیا ہے یعنی شاد رہے پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments